اختیارات کی منتقلی

0

داد بیداد

ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی
نچلی سطح پر اختیارات منتقل کرنا اس دور میں نظم ونسق اور گورننس کا ایک کامیاب اصول مانا جاتا ہے۔ اس طرح فیلڈ میں کام کرنے والے افیسروں کو خدمات کی فراہمی یعنی سروس ڈیلیوری میں سہولت اور آسانی ہوتی ہے آج کل دنیا بھر کی طرح ہمارے ملک میں بھی کورونا کی وبا آئی ہوئی ہے اس وبا سے نمٹنے کے لئے تمام اضلاع میں قرنطینہ کے مراکز قائم کئے گئے ہیں جن پر فیلڈ افیسروں کی ڈیوٹی لگی ہوئی ہے ۔ تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق خیبر پختونخواہ میں 20ہزار مریضوں کا علاج ہورہا ہے۔

کورونا کی وباء میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد27تک پہنچ گئی ہے۔ صوبے کے34اضلاع میں قائم قرنطینہ سنٹروں سے2600افراد فارغ ہوکر گھروں کو جاچکے ہیں 1325افراد قرنطینہ مراکز میں موجود ہیں اور ان کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ قرنطینہ مراکز سے ایسی اطلاعات بھی اخبارات میں آرہی ہیں کہ لوگوں نے سہولیات کی کمی پر احتجاج کیا ۔ ایسی خبریں بھی آرہی ہیں کہ قرنطینہ سے بھاگنے والوں میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے ایسی خبریں بھی آرہی ہیں کہ بازار کے لوگوں نے قرنطینہ کے لئے دال،سبزی،گوشت، روٹی، چاول گھی وغیرہ دینے سے انکار کیا۔ اس طرح کے حالات میں موقع پر موجودفیلڈ افیسر ذمہ دار ہوتا ہے،عوام بھی اس کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں حکومت بھی اس کو ذمہ دار قراردیتی ہے۔ 2005سے پہلے ڈپٹی کمشنر کے پاس فنڈ ہوتا تھا۔ جس کانام کان ٹن جنسی فنڈ تھا۔

اس کے علاوہ آفات اور دیگر حالات میں ڈپٹی کمشنرکو مزید فنڈدیا جاتا تھا جس کو خرچ کرکے وہ موقع پرلوگوں کے مسائل حل کرتا تھا اعجاز رحیم، شکیل درانی، رستم شاہ  مہمند، اعجاز قریشی، سید مظہرعلی شاہ اور بے شمار فیلڈ افیسر بقید حیات ہیں وہ اپنے تجربات سے حکومت کو آگاہ کرسکتے ہیں ارباب شہزاد اور اعظم خان بھی فیلڈ میں کام کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں ۔ وزیراعلیٰ محمود خان کے قریبی حلقوں میں ایسی شخصیات موجود ہیں جنہوں نے فیلڈ میں کام کیا ہے اور سروس ڈیلیور کیا ہے۔ موجودہ حالات کی ایک جھلک ان رپورٹوں میں نظر آتی ہے۔ جو ڈیرہ اسمٰعیل خان، بنوں ،ایبٹ آباد، سوات، مردان، دیر اور چترال سے مل رہی ہیں رپورٹوں کے مطابق جن ضلعوں کے لئے حکومت نے6کروڑ روپے کا فنڈ منظور کیا ہے ان ضلعوں کے فیلڈ افیسروں کو ایمرجنسی خدمات کے لئے ایک پائی نہیں ملی۔ طریقہ کار یہ ہے کہ سارا فیلڈ نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کو دیا جاتا ہے جو اسلام آباد میں ہے۔ اسلام آباد سے یہ فنڈپراونشل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کے پاس آتا ہے۔ صوبائی دارالحکومت میں قائم ادارے کا اضلاع کی سطح پر کوئی دفتر نہیں ۔ ڈپٹی کمشنر پریہ لوگ اعتبار نہیں کرتے اس لئے کہتے ہیں پہلے خرچہ کرو، پھر بل دیدو،خرچہ کرکے بل دینے اور فنڈ منظور کرانے میں دومہینے لگتے ہیں۔

کورونا کے دور میں بازارکے غریب تاجر اپنا مال قرض دےکر دوماہ تک انتظار نہیں کرسکتے سچی بات یہ ہے وہ اس بات پر یقین ہی نہیں کرتے کہ ڈپٹی کمشنراور فیلڈ پر موجود اسسٹنٹ کمشنر کے پاس ایک دھیلا نہیں ہے وہ بل منظور کرانے کے لئے پشاور کے بڑے دفتر اسلام آباد کے دفتر سے منظوری لیتا ہے جس ضلع کے لئے6کروڑروپے کا فنڈ دیا گیا ہے۔ طریقہ کار کے مطابق اس میں سے 50لاکھ روپے ریلیزکئے جاتے ہیں مگر بینک سے اس رقم کو کیش کرنے کے لئے سارے بل این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم اے سے کلیر کرانے کی شرط مقرر ہے ۔ بلوں میں کیڑے نکالنے والے اتنے کیڑے نکالتے ہیں کہ پُل صراط عبور کرنا بل پاس کرانے سے آسان معلوم ہوتا ہے۔

فرض کریں لکی مروت،بنوں ،مینگورہ، مٹہ یا تیمرگرہ کے تاجر نے دو لاکھ روپے کاسودا فیلڈ افیسر کودیدیا ے اس کو کیا پتہ ہے کہ فنڈپراونشل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کس بلا کا نام ہے پراونشل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کس آفت اور وباء کو کہا جاتا ہےاس کو یہ بھی نہیں پتہ کہ میرے بلوں پر دستخط کرنے کےلیے کوئی افیسر تیار نہیں ہے۔ فیلڈ افیسر تاجر کے پاس جاتا ہے تووہ گذشتہ ماہ کے بل مانگتا ہے۔ ظاہر ہے ایک تندور والا ،ایک قصائی،ایک مرغی فروش یا ایک چھوٹا دکاندار فیلڈ افیسر کو مال دیکر بل پاس ہونے کے لئے دویاتین مہینے انتظارنہیں کرسکتا ۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ شام کو ریڈیو اور ٹیلی وژن پرباربار اعلانات آتے ہیں ان اعلانات میں حکومت کی طرف سے تاریخی پیکیج اور اربوں روپے کے اخراجات کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے اور قرنطینہ میں ہرسطح پر بہترین سہولیات دینے کاذکر ہوتا ہے ۔ کلیجہ اس وقت منہ کو آتا ہے جب تاجر کے اپنے ضلع میں 6کروڑکا فنڈ آنے پر زور دیا جاتا ہے۔ 6کروڑ کا نام باربار لیا جاتا ہے۔ ایک پُرانی فلم کانام تھا ’’ساتھ لاکھ‘‘ فلم کا ایک کردار کہتاتھا سات لاکھ روپے جوتم صرف گن سکتے ہو خرچ نہیں کرسکتے۔ یہاں 6کروڑ روپے گننے کے لئے بھی دستیاب نہیں اگر آج فلم بنی تو ڈائیلاگ یوں ہوگا ’’6کروڑ روپے جن کا صرف نام سنا ہے‘‘جی ہاں !اختیارات کی مرکزیت نے فیلڈافیسروں کو مصیبت میں ڈال دیا ہے ایک طرف کرونا ہے،قرنطینہ ہے،ایمرجنسی ہے دوسری طرف ایمرجنسی میں خدمات انجام دینے والے حکام،سروس ڈیلیور کرنے والے حکام اور فیلڈ فورس کی فرنٹ لائن پرکام کرنے والے افیسروں کے ہاتھ پیر باندھ دیئے گئے ہیں۔ فارسی کا مقولہ ہے،نہ جائے ماندن نہ پایے رفتن۔ اس کا آسان حل2005سے پہلے کے سادہ اور آسان سسٹم کی طرف واپسی ہے۔

وہی دیرینہ بیماری وہی نامحکمی دل کی
علاج اس کا وہی آب نشاط انگیز ہے ساقی

Leave A Reply

Your email address will not be published.

error: Content is protected!!