Chitral Today
Latest Updates and Breaking News. Editor: Zar Alam Khan.

انصاف کا نیا ماڈل

داد بیداد

ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی
اخبارات میں دوکالمی خبر آگئی مگر کورونا ،لاک ڈاون اور قرنطینہ کے ناہنجار دور میں کسی نے اس پر غور نہیں کیا ایسی خبریں گذشتہ کئی سالوں سے تواتر کے ساتھ آرہی ہیں کورونا کارونہ بھی ہو سیاسی اُتار چڑھاو کی چٹ پٹی خبروں میں ایسی خبر گم ہوجاتی ہے واقعات کے مطابق محکمہ جنگلی حیات کے اہلکاروں نے جنگل میں مارخور یا ہرن کے غیرقانونی شکاری کو رنگے ہاتھوں گرفتار کرکے برآمدشدہ مال وقوعہ کے ہمراہ ڈویژنل فارسٹ آفیسر یا ڈپٹی کنزرویٹر کی عدالت میں پیش کیا۔ عدالت نے ملزم سے پوچھ گچھ کی۔ ملزم نے جرم کا اقرار کیا۔ عدالت نے اس کو جرمانے کی سزاسنائی۔

موقع پر جرمانہ وصول کرکے محکمے کے پکے کاغذات پر پکی رسید ملزم کو دیدی اور دودنوں کے اندر مقدمہ نمٹادیا ۔ یہ قانون چیف کنزرویٹر وائلڈ لاءف ممتاز ملک کے دور میں منظور ہوا ۔ صوبائی حکومت نے محکمے کے افیسروں کو مقدمات سننے اور فیصلہ سنانے کے لئے مجسٹریٹ کے اختیارات دیدیے تازہ ترین خبر کی تفصیلات میں لکھا ہے کہ ملزم نے ہمالیائی ہرن کے ایک سالہ بچے کا شکار کیا۔

وائلڈ لاءف ڈیپارٹمنٹ کے اہلکاروں نے ملزم کو موقع پر رنگے ہاتھوں گرفتار کرکے اس کے قبضے سے راءفل،دوربین،شکار کا گوشت اور چمڑا اور جانور کی سینگیں برآمد کیں ۔ محکمہ جنگلات کے اہلکاروں کو ملک کی تیسری باوردی فوج کہا جاتا ہے یہ وردی والے لوگ تھے۔ ملزم اور مال وقوعہ کو لیکر دفتر پہنچے، ملزم کو حوالات میں رکھا، مال وقوعہ کو مال خانے میں داخل کرکے ان کی پکی انونٹیری بنائی ملزم کا بیان لیا۔ اعتراف جرم کے بیان پر محکمہ کے تین اہلکار گواہ بن گئے موقع پر موجود افیسر یا محکمانہ مجسٹریٹ کے سامنے سارا ریکارڈ پیش کیا۔ ملزم نے خود پیش ہوکر اپنے جرم کا اقرار کیا اور خوشی سے جرمانہ دینا منظور کیا، مجسٹریٹ نے ملزم کو دولاکھ روپے جرمانہ کی سزا سنائی راءفل، دروبین اور برآمد شدہ سامان بحق سرکار ضبط کرلیا گیا۔

ملزم دودنوں تک حوالات میں رہا، اس اثناء میں جرمانہ کی رقم جمع کی گئی،چالان کے مطابق جرمانہ وصول کرکے رسید دیدی گئی اس پر تین بندوں کی گواہی لی گئی اور ملزم کو رہا کردیا گیا ۔ کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا دولاکھ روپے کا ’’والا لطیفہ اس پرصادق آتا ہے، وطن عزیز میں یہ انصا ف کا نیا ماڈل ہے جو ایک عرصے سے چل رہا ہے پہلا ماڈل مروجہ عدالتوں کا نظام ہے، دوسرا ماڈل فوجی عدالتوں والا سسٹم ہے۔

تیسرا ماڈل مروجہ عدالتوں کے اندر ماڈل کورٹ والا نظام آیا ہے چوتھا ماڈل محکمانہ عدالت ہے۔ جس کی منظوری غیر معمولی حالات میں خصوصی قانون سازی کے ذریعے دی گئی ہے اس پر یہ اعتراض وارد کیا جاتا ہے کہ اس میں ملزم کو صفائی کے وکیل کی خدمات حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی اس اعتراض کا یہ جواب دیا جاتا ہے کہ جس طرح میٹھا زہرکھانے والا جان بلب مریض پانی نہیں مانگتا اسی طرح محکمہ جنگلی حیات کے حوالات میں قید ہونے والا ملزم وکیل صفائی کی خدمات سے بخوشی دست بردار ہوجاتا ہے ۔ وکیل صفائی اُس وقت میدان میں آتا ہے جب ملزم کو اس کی ضرورت ہو یہاں ملزم اس کی ضرورت محسوس نہیں کرتا اس قانون کا پس منظر یہ ہے کہ چیف کنزرویٹر ممتاز ملک ہرماہ غیرقانونی شکار کے مقدمات کا پراگریس طلب کرتا تھا،ہرماہ اس کورپورٹ دی جاتی تھی کہ ’’مقدمہ عدالت میں ہے‘‘ جسطرح قدرت اللہ شہاب ایک مقدمے کی کاروائی میں ’’ رپورٹ پٹواری مفصل ہے‘‘ کی تکرار سے تنگ آگیا تھا اسی طرح ممتاز ملک بھی ’’مقدمہ عدالت میں ہے‘‘کی تکرار سے تنگ آگیا، اُنہوں نے صوبائی حکومت کے سامنے تجویز پیش کی اور مطالبہ کیا کہ میرے فیلڈ افیسروں کو محکمانہ مقدمات سننے کےلئے مجسٹریٹ درجہ اول کے مخصوص اختیارات دیدے جائیں جوصرف وائلڈ لاءف پروٹیکیشن اینڈ کنزرویشن ایکٹ کے دائرہ کار تک محدود ہوں۔

صوبائی حکومت نے قانون سازی کی اور اختیارات دیدیے ۔ چیف کنزرویٹر ممتاز ملک کا کہنا تھا کہ میں نے بحیثیت ڈویژنل فارسٹ افیسر وائلڈ لاءف1977 میں جومقدمہ مروجہ عدالت میں بھیجا تھا اُس کا فیصلہ میرے چیف کنزرویٹر بننے تک نہیں آیا ۔ اس دوران 20سال گذرگئے۔ عدالتی کارروئی کی اس غیرمعمولی طوالت سے تنگ آکر میں نے صوبائی حکومت کے سامنے یہ تجویز پیش کی اور صوبائی حکومت نے قانون سازی کرکے محکمے کے افیسروں کو خصوصی اختیارات تفویض کئے۔ اگر سرسری جائزہ لیاجائے تو یہ بات کھول کر سامنے آئیگی کہ تمام محکمے مروجہ عدالتی نظام کی پیچیدگیوں سے تنگ آگئے ہیں لیکن ہر محکمہ اپنا مجسٹریٹ میدان میں نہیں لاسکتا اس وجہ سے مجبوراً مروجہ عدالتوں کے محتاج ہیں وائلڈ لاءف کے حوالے سے مروجہ عدالتوں میں دومسائل بہت گھمبیر نوعیت کے تھے۔

پہلا مسئلہ یہ تھا کہ عدالت وائلڈ لاءف کے اہلکاروں کی گواہی تسلیم نہیں کرتی تھی اور سطح سمندر سے9000فٹ یا12000فٹ کی بلندی پر دشوار گذار پہاڑوں میں دیہی یاشہری آبادی سے گواہ لانا ممکن نہیں تھا۔ دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ عدالت دوسال گذرنے تک ملزم کا بیان ریکارڈ نہیں کرتی تھی۔ بیان ریکارڈ ہونے کے بعدگواہوں کے بیانات ریکارڈ کرنے میں کئی سال لگتے تھے بحث کی نوبت آنے پر کھبی جج غیر حاضرہوتا کھبی وکلاء کی ہڑتال ہوتی کھبی ملزم کا وکیل غیر حاضر ہوتا،کھبی سرکاری وکیل التواء کی درخواست کرتا چنانچہ تاریخ پر تاریخ دی جاتی۔ ایک عدالت سے فیصلہ آنے کے بعد دوسری عدالت میں اپیل اور تیسری عدالت میں اپیل کے مرحلے آتے۔

بقول غالب’’کون جیتا تیری زلف کے سر ہونے تک‘‘ یہ سلسلہ زلف یار سے دراز ترہوتا چلاجاتا تھا مقدمے کی طوالت سے صرف محکمانہ کارکردگی متاثرنہیں ہوتی تھی۔ ملزمان بھی اس سلسلے سے تنگ آجاتے تھے بعض دفعہ ملزمان خود آکر عدالت سے باہر تصفیہ کی درخواست کرتے تھے محکمے کا ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ سرکاری وکیل کے پاس بہت زیادہ مقدمات ہوتے تھے وہ وقت نہیں دے سکتا تھا۔ پرائیویٹ وکیل کرنے کے لئے محکمے کے پاس فنڈ نہیں ہوتا تھا۔ اس طرح صوبائی حکومت نے محکمہ جنگلی حیات کو انصاف کا نیاماڈل بناکر دیا۔

You might also like

Leave a Reply

error: Content is protected!!