Chitral Today
Latest Updates and Breaking News. Editor: Zar Alam Khan.

ٹیچرز ٹرنینگ اور ایجوکیشن بورڈ

داد بیداد
ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی
پہلے خبر آئی تھی کہ حکومت نے تربیت اساتذہ کے اداروں کو بند کر نے کا فیصلہ کیا ہے پھر خبر آگئی کہ حکومت نے ایجو کیشن بورڈوں کی اہم آسامیوں پر باہر سے لوگ لانے کی سمری تیار کی ہے شعبہ تعلیم سے تعلق رکھنے والے لوگ حیراں ہیں کہ حکومت تعلیم کے محکمے کو تجر بہ گا ہ بنا نے پر کیوں تُلی ہو ئی ہے ؟ اساتذہ کی تربیت محکمہ تعلیم کا اہم شعبہ رہا ہے پوری دنیا میں اس کی اہمیت کو تسلیم کیا جاتا ہے 1960 کے عشرے میں اساتذہ کی تربیت کے ادارے گُل بہار پشاور، ہری پور، ڈئی آئی خان، ورسک اور لنڈی کوتل میں قائم تھے وقت گذرنے کے ساتھ ان میں اضا فہ کی ضرورت محسوس کی گئی اور ان کی تعداد بڑھا دی گئی ریجنل انسٹیٹوٹ فار ٹیچرزایجوکیشن کے نام سے تربیتی ادارے دیگر جگہوں میں بھی قائم کئے گئے نصاب تعلیم اور تربیت اساتذہ کی الگ نظا مت قائم کی گئی جس کا دفتر ایبٹ اباد میں رکھا گیا
ڈائر یکٹو ریٹ آف کریکو لم اینڈ ٹیچرز ایجوکیشن کو مضبوط اور مستحکم ادارہ بنا یا گیا اور اس کام میں اچھی حکومتوں کے کئی سال لگے شاعر کا مصرعہ ہے ’’بستی بسا نا کھیل نہیں بستے بستے بستی ہے‘‘ ان اداروں سے تربیت پانے والے مرد اساتذہ اور خواتین اُستا نیاں صوبے کے طول و عرض میں خد مات انجام دے رہی ہیں 2018 میں حکومت نے فیصلہ کیا کہ اساتذہ کی بھر تی کے لئے پیشہ ورانہ تعلیم کی شرط ختم کر دی جارہی ہے شرط ختم کر کے حکومت نے وضا حت جاری کی کہ آئیند ہ اساتذہ کی تربیت بھر تی ہو نے کے بعد کی جائیگی مگر ایک سال کے اندر اساتذہ کی تربیت کے اداروں کو تالا لگا نے کا حکم آیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ اساتذہ کی تربیت کا پورا نظام ختم کر دیا جا رہا ہے نہ رہے با نس نہ بجے بانسر ی سردست اس بات کا علم کسی کو نہیں کہ حکومت کو ایسی اوٹ پٹا نگ تجا ویز کو ن دے رہا ہے ؟ حکومت کس کی مشاورت سے اس طرح کے فیصلے کر رہی ہے؟ تازہ ترین خبر یہ ہے کہ صو بے کے تعلیمی بورڈوں کی کلید ی آسا میاں باہر سے آنے والوں کو دی جا رہی ہیں محکمہ تعلیم کا ان بورڈوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوگا سکول ، کالج ،کلاس روم ، اساتذہ اور محکمہ تعلیم کے ساتھ ایجو کیشن بورڈوں کا تعلق ختم ہو جائیگا باہر سے آنے والے لوگ بورڈوں کا انتظام سنبھا لینگے
جنرل ضیاء اور جنر ل مشرف کے ا دوار میں ایجو کیشن بورڈوں کا انتظام تو پ خانہ کے افیسروں کو سونپ دیا جاتا تھا وہ چند سال نئے نئے تجر بے کر کے اپنے پیچھے ملبہ اور کچرا چھوڑ کر چلے جاتے تھے اب بھی باہر سے آنے والے لوگ یہی کا م کرینگے ریکارڈ کی درستگی اور بعد میں آنے والوں کی رہنمائی کے لئے اہم سماجی ، معاشرتی اور عوامی مسائل پر قلم اُٹھا نا قلمکا ر کی ذمہ داری ہے آج کل اخبارات میں جو تجاویز، مشورے، تجزئیے یا تبصرے آرہے ہیں ان کے مخاطبین موجودہ حکمران نہیں بلکہ آنے والے وقتوں کے لوگ ہیں جہاں تک تربیت اساتذہ کے اداروں کو ختم کرنے کا مسئلہ ہے اس کے دو پہلو ہیں ایک پہلو یہ ہے کہ گزشتہ چند سالوں میں بڑے شہروں میں قائم رائٹ کالجوں میں داخلے بہت کم ہوئے اس وجہ سے پورے صوبے سے ان کالجوں کا خاتمہ کیا جا رہاہے دوسرا پہلو یہ ہے کہ اساتذہ کے لئے تربیت کی شرط ختم کردی گئی تربیتی اداروں کی کیا ضرورت ہے؟ اس حوالے سے معقول اور قابل عمل رائے یہ ہے کہ تربیت اساتذہ کی شرط ختم کرنے کے بعد حکومت نے دورانِ ملازمت اساتذہ کی تربیت کا عندیہ دیا ہے اگر چترال، ڈی آئی خان اورمانسہرہ جیسے دور دراز اضلاع میں قائم تربیتی اداروں کو بند کر دیا گیا تو اِن سروس ٹریننگ کے لئے مرد اور خواتین اساتذہ کو کہا ں لے جایا جائے گا؟
پشاور میں پائیٹ کے نام سے جو ادارہ قائم ہے اس کی استعداد بہت محدود ہے اور یہ ممکن نہیں کہ چترال سے ڈی آئی خان تک تمام اضلاع سے مر د اور خواتین اساتذہ کو پشاور لاکر پائیٹ میں رکھا جائے یہ قابل عمل منصوبہ نہیں ہے اگر حکومت کسی خاص وجہ سے سارا کام پائیٹ کو دینا چاہتی ہے تو یہ بھی افسوس ناک بات ہے حکومت کو ماضی میں بھی جھانکنا چاہئیے مستقبل پر بھی غور کرنا چاہئیے 100سال حکومت کرنے کے بعد بھی ایک دن جانا ہے جانے کے بعد حکومت کیا چاہتی ہے؟ کیا یہ چاہتی ہے کہ اس کو ہٹلر ،اور یحیےٰ خان کی طرح یادکیا جائے اور کہا جائے کہ سب کچھ تباہ کرکے یہاں سے اُٹھ گئے؟ اگر یہ نہیں چاہتی تو پہلے سے قائم اداروں کو توڑ پھوڑ کر بر باد کر نے کی جگہ ایسے اداروں کو مستحکم کیا جائے، چترال، ڈئی آئی خان اور ما نسہرہ کے کالجوں میں آخر ی سال تک طلبا ء اور طالبات کی تعداد پوری تھی تعداد میں کوئی کمی نہیںآئی، معیار کا کوئی مسئلہ نہیں ہوا پھر ایسے اداروں کو بند کر نے کا کیا جواز بنتا ہے؟ یہی حال ایجو کیشن بورڈوں کا ہے امتحا نی نظام شعبہ تعلیم کا اہم ترین نظام ہے اس شعبے کے ما ہر ین ہی اس کو چلا سکتے ہیں با ہر سے آنے والا افسر اپنے لبا س، اپنے ٹھاٹ باٹ اور اپنے پروٹو کو ل کے حساب سے سب کو متا ثر کر یگا مگر امتحا نی نظام کو 3 سالوں میں بر باد کر کے رکھ دیگا اُس کے جا نے کے بعد پھر کوئی ماہر تعلیم آکر اس کو دو بارہ درست کر یگا
You might also like
2 Comments
  1. Mohammad Ilyas Khwaja says

    Teacher Training is necessary as a secondary thing. First thing and the most neglected thing is to be expert in own subject. As a dumb cannot teach to talk similarly, a man not efficient in own skill can not teach just having the knowledge of how to teach only. It should be dealt as an extra knowledge with the skill one masters in.
    A man expert in own field should then know different skills to convey the knowledge and idea in his mind to others. Many people having M ed and B ed degrees with extra-ordinary teaching abilities have proved useless for their lacking capability of own subject of teaching. I know a man having different master degrees but he cannot write a paragraph on any of those subject in any language. I also came across a professor skilled in teaching educational skills. His students said to me that they hardly get his idea. It is just like to decorate a dilapidated building.

  2. Habibullah khan says

    Good to see some thoughts on the recent move to close teachers training institutions. It reminds me an English saying” bull in a China shop”.

Leave a Reply

error: Content is protected!!