چترال کی بیٹی کے نام

0

دھڑکنوں کی زبان

محمد جاوید حیات
پاکیزہ کو یکدم کیا ہو گیاتھا کہ سر ڈھانپنے لگی تھی۔۔یونیورسٹی جاتی بچی ابھی اپنے دوپٹے کا خیال رکھنے لگی تھی ۔۔اپنے چہرے کا غازہ ۔۔ہونٹوں کی لالی ۔ناخنوں کی پالش کی کوئی پرواہ نہیں تھی ۔۔جوتوں کی رنگت اور کپڑوں کی فیشن کی بھی پرواہ نہیں تھی ۔۔پتہ نہیں کیوں چلنے میں تواضع آگیا تھا ۔آنکھوں میں حیا ء کی چمک آگئی تھی ۔اب کی بار سحری میں سب سے پہلے اٹھنے لگی تھی باورچی خانے میں سارے کام کرکے ماں کو جگانے لگی تھی ۔۔یہ رمضان کا دوسرا روزہ تھا کہ ماں ڈھیر ساری دعائیں دے رہی تھی۔۔یہ اس کے اندر کی کیفیت کسی کوپتہ نہیں تھا ۔۔تعلیم تو وہ حاصل کر ہی رہی تھی لیکن کسی تبدیلی کا کوئی احساس نہیں رہا تھا ۔۔وہ تو بات بات میں منہ بناتی ۔۔اس سے یہ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ باورچی خانے میں کوئی معمولی سا کام کرو ۔۔وہ تو یونیورسٹی پڑھتی تھی اس کے ساتھ توہین تھی۔۔اس کی ان پڑھ ماں اور کم پڑھے ابو کی ایسی جرات ہی نہیں تھی کہ اس کو کچھ کہا جاتا ۔۔یہ لوگ تو اس کے’’بڑے آدمی‘‘ ہونے کا انتظار کر رہے تھے ۔۔۔۔بڑا آفیسر ۔۔پھر تو اس کا معیار بھی بڑا ہوگا۔۔اس معیار تک پہنچنا بھی محال ہے ۔۔اس کی رنگیں زندگی میں ان جیسوں کا دخل بھی نادانی ہے ۔۔اس رمضان نے پاکیزہ کو بدل کے رکھ دیا تھا۔۔اب وہ کوئی یونیورسٹی جاتی بچی نہیں لگ رہی تھی ۔۔ایک دیہی سیدھی سادی سی معصوم بچی ۔۔ایک دن ایسا ہوا تھا کہ پاکیزہ علامہ اوپن یونیورسٹی کے اے ڈی ای پروگرام کی ورک شاپ پہ گئی تھی ۔۔اس کے ریگولر اساتذہ روایتی ہی تھے ۔۔لیکن ایک دن ایک استاد ایک پریڈ لینے آیا۔۔ یہ عجیب استاد تھا ۔۔اس نے آتے ہی پوچھا کہ’’تعلیم کسے کہتے ہیں؟‘‘ ۔۔سب کو ہنسی آئی کہ اتنا چھوٹا سوال ۔۔اتنا اسان ۔۔پھر استاد نے تعلیم کی عجیب تعریف کی ۔۔کہا کہ تعلیم کاغذ کے پرزے کا نام نہیں ہے ۔۔بیٹی اگر پی ایچ ڈی بھی کرے تو اس کو باورچی خانہ چھوڑ نا نہیں چاہیے ۔۔پہلے ہمیں ہنسی آئی۔۔ پھر پتہ نہیں اس استادکی باتوں میں کیسا عضب کا اثر تھاکہ ہم متاثر ہوتے گئے۔۔پھر لگا کہ یہ سر باتیں ہی کرتے جائے اور ہم سنتے ہی رہیں۔۔پھر سر نے کہا کہ بیٹی ایک احساس کا نام ہے ۔۔ایک محبت۔۔ ایک احترام۔۔ ایک عقیدت کا نام ہے ۔۔بیٹی کا کام خدمت اور محبت ہے ۔۔اس کی ڈگری۔۔اس کی تعلیم۔۔اس کا عہدہ۔ اس کے ایک جملے سے عیان ہوتے ہیں ۔۔جب وہ اپنے ابو کی طرف محبت سے دیکھ کر عقیدت سے کہہ دے ۔۔’ابو‘۔۔پھر اس کی محبت آنسو بن کر اس کی پلکوں تک آئے ۔۔وہ اپنے ابو سے کچھ نہ مانگے نہ کسی چیز کا تقاضا کرے ۔۔جو کچھ ابو لے کے دے اس کو دل سے سینے لگائے ۔۔ماں کی مدد کو اپنی پہچان سمجھے ۔۔اپنے ماں باپ ۔۔بہن بھایؤں اور بزرگوں کے سامنے اپنا سب کچھ بھول جائے ۔۔اپنا عہدہ ۔۔اپنی ڈگری ۔۔اپنی تعلیم ۔۔ایک ان پڑھ بن جائے ۔۔یوں لگے کہ یہ ایک ان پڑھ بنجارہ محبت کے سوا کچھ نہیں سمجھتی ۔۔سب کو اس پہ دیوانہ وار پیار آجائے ۔سب کہہ دیں کہ یہ ’’بیٹی ہے ‘‘سانجی ۔۔پھر سر نے سرد آہ بھری اور کہا کہ اگر بیٹی اپنے آپ کو پہچانے تو وہ رحمت ہے ۔ایک تحفہ ۔۔ایک خوشبو ۔۔ایک پھول ۔۔پھر سر کی انکھوں میں بیٹی کی محبت آنسو بن کر آگئی ۔۔پھر سب کو لگا کہ سب اس کی بیٹیاں ہیں ۔۔ہم اپنی تعلیم بھول گئیں ۔۔۔پہلی دفعہ ایسا لگا کہ ہم تعلیم یافتہ نہیں تھے۔۔ اب بن رہے ہیں ۔۔پاکیزہ اسی ایک کلاس سے تبدیلی محسوس کر رہی تھی اور وہ باورچی خانے اس لئے جاتی تھی کہ وہ اب اس تعلیم کی ابتدا ء کر رہی تھی ۔۔جو انسانیت کی تعلیم تھی وہ ایسی تعلیم تھی کہ اس سے قوم کی بنیادیں پختہ ہو جاتی تھیں ۔۔ایک ایسی قوم جس کی بیٹی کی اپنی پہچان ہوتی تھی ۔۔بیٹے کی اپنی ۔۔بھائی کی اپنی ۔۔ماں ماں باپ کی اپنی ۔۔پاکیزہ کی اس تبدیلی کو ماں باپ نے محسوس کیا تھا ۔۔باپ نے کہا بیٹا ۔۔’’اس بار عید کی خریداری کیسی ہو ‘‘۔۔پاکیزہ نے آنکھوں میں معصومیت لا کر کہا ۔۔’’ابو کوئی خریداری نہیں کرنی ۔۔۔کپڑے جوآپ لائیں گے وہی ٹھیک ہیں ‘‘۔۔اس نے اپنا سر ابو کے کاندھے پہ رکھ لی ۔۔اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گر رہے تھے ۔۔اس کا ابو حیران اس کو دیکھ رہا تھا ۔۔اس کو پہلی دفعہ پاکیزہ پہ پیار آیا اور اس کو لگا کہ پاکیزہ بیٹی ہے ۔۔پیاری سی معصوم گڑیا۔۔
Leave A Reply

Your email address will not be published.

error: Content is protected!!