Chitral Today
Latest Updates and Breaking News. Editor: Zar Alam Khan.

فرق محسوس ہو رہا ہے

شیرولی خان اسیر آنکھوں سے سیاسی تعصب کی عینک اتار کر دیکھا جائے تو خیبر پختون خواہ میں حکومت کی کار کردگی میں فرق نظر آنے لگا ہے۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور محسوس کیا کہ پہلے کے مقابلے میں ہسپتالوں میں ڈاکٹروں اور دوسرے سٹاف کی کار کردگی بہتر ہوگئی ہے۔ صبح وقت پر ڈاکٹر صاحبان کی حاضری کسی حد تک یقینی ہوگئی ہے۔ آٹھ بجے کے بعد ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکل سٹاف کو بھاگتے ہوئے اپنے اپنے کلینکس اور وارڈوں میں گھستے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ ساڑھے آٹھ بجے تک  کام شروع ہو چکا ہوتا ہے۔ ہسپتالوں کے اندر صفائی کا نظام بہتر ہونے لگا ہے۔ خاک روپوں کو صفائی کرتے ہوئے اور تیز تیز ہاتھ چلاتےدیکھ سکتے ہیں۔ ہر شعبہ صحت کے ساتھ او پی ڈی کاؤنٹر کا انتظام اور کمپیٹرائزڈ ٹسٹ رزلٹ دینے کا انتظام مریضوں کے لیے بڑی آسانیاں پیدا کر رکھی ہیں۔ہسپتالوں کے کام میں بہتری کا اندازہ میں نے ایوب ٹیچنگ انسٹیٹیوٹ ابیٹ آباد میں اپنی کمر کے علاج کے لیے فیزیو تھیراپی کروانے کے دوران  لگایا۔ چونکہ اس ہسپتال کے ساتھ میری واقفیت کافی پرانی ہے۔ 2005 سے لے کر 2012 تک ایبٹ آباد میں میری عارضی رہائش رہی اوراس ہسپتال کے ڈاکٹروں کے زیر علاج رہا ہوں۔ اس کے بیرونی منظر کی دلکشی شاید کسی دوسرے ہسپتال میں موجود نہیں ہے۔ اس کے لانز کے ڈیزئین، پھلواریوں، رویشوں، کیاریوں کی خوبصورتی اور پھولوں کی اقسام کا نظارہ ہی تھوڑا ذوق جمال رکھنے والا مریض صحت کاملہ دے سکتا ہے۔ لیکن ہماری “قومی گند پسندی” کے سامنے ان کی قدر کہاں ہے۔ روز صفائی کے باوجود کاغذ کے ٹکڑے، پلاسٹک کی تھیلیاں وغیرہ کچرے ان پر  پھینکنے والوں کی کمی نہیں بھی ہے۔ موازنہ کرتا ہوں تو موجودہ حالت پہلے کے مقابلے بہت اچھی ہے۔ ایک انتظامی نقص مجھے جو نظر آیا وہ وارڈوں کی کمی ہے۔ مریضوں کا دباؤ اس ہسپتال پربہت ہی زیادہ ہے۔ خاص کرکے زچہ بچوں کے لیے وارڈز اور بستروں کی شدید کمی ہے۔ بچوں کی نرسری میں دو دو تین تین بچے ایک  اِنکیوبیٹر میں دیکھے جاسکتے ہیں۔  گائینی وارڈوں میں دو دو اور کہیں تین خواتین بھی ایک بیڈ پر پڑے ہوتی ہیں۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ گائینی اور پیٹس کے لیے علٰحیدہ عمارت کبھی کا تیار ہوکر خالی پڑی ہے اور ادھر یہ حالت ہے کہ مریضوں کے لیے بستر نہیں۔ ایک دن نیورو سرجری کے اپریشن تھیٹر میں جانے کا اتفاق ہوا تو دیکھا کہ فرنیچر فرسودہ تھا،عمارت کی چھت، فرش اور دیواریں انتہائی قابل مرمت تھی۔ یہ محکمہ صحت کی ناقص کارکردگی ہے۔ انتظامی نقص کی وجہ سے اسی ہسپتال میں پندرہ بیس دنوں تک احتجاج دھرنے اور ہڑتالیں بھی دیکھیں۔ پہلے ڈاکٹروں نے ایک ہفتے تک باہر کیمپ لگاکر مریضوں کا معائین کیا۔ اس کے بعد پیرا میڈیکل اور کلاس فور ملازمیں ہڑتال میں رہے۔ اس دوران ہسپتال کچرا خانے کا منظر پیش کر رہا تھا۔ اسی طرح سکولوں میں اساتذہ کی حاضری اچھی ہے البتہ ابھی ہم یہ فیصلہ نہیں کرسکتے کہ بچوں کی تدریس کے معیار میں بہتری آئی ہے یانہیں کیونکہ اساتذہ کو بزور ڈنڈا حاضر رکھنے سے پڑھائی میں اچھائی کی گرانٹی نہیں دی جاسکتی۔ اساتذہ کی بھرتی میں میرٹ پر عمل کرنے کا مظاہرہ ہورہا ہے۔ میرٹ پر بھرتی شدہ استاد درست معنوں میں معلم بن سکتا ہے۔ اس کے ساتھ اساتذہ میں فرض شناسی کا عنصر زندہ کرنے کا طریقہ ڈھونڈنا چاہیے اور ان کی عزت نفس کی حفاظت کی ضمانت ہونی چاہیےجو نوآبادیاتی دور کے نظام تعلیم کے ہاتھوں مر چکی ہے۔ پرائمری سکولوں میں اساتذہ اور عمارت کی کمی بدستور قائم ہے۔ اگرپرائمری سکولوں میں جماعتوں کی تعداد کے حساب سے اساتذہ کی تعیناتی ہوجائے اور ہر کلاس کے لیے الگ کمرہ تعمیر ہوجائے تو پھر بہترین معیار تعلیم کی ضمانت مل سکتی ہے جس سے ایک توانا، محب وطن اور باصلاحیت پاکستانی قوم جنم لے سکتی ہے۔ یہاں پر نصاب تعلیم کے بارے میں بھی اپنے مختصر خیالات کا اظہار بھی ضروری سمجھتا ہوں۔ نرسری سے لے کر پنجم تک کے بچوں کے لیے جو نصاب منظور کیا گیا ہے وہ بچوں کی ذہنی استعداد کے لحاظ سے زیادہ بھاری ہے۔ اس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے ورنہ چھوٹے بچے سکول سے بیزار ہوجائیں گے۔ سیاسی لوگ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور نا اہل ثابت کرنے کی کوشش میں جھوٹ بولتے رہتے ہیں۔ ہم جیسے لوگ سیاسی ہوں بھی تو وہ  نہ کسی کوخوشامد کرنے کی ضروت محسوس کرتے ہیں اور نہ کسی کے خلاف جھوٹ بول کراپنا منہ کالا کرنے کا گناہ کرتے ہیں ۔ ہمیں اپنے پیارے ملک اور اسکی غریب عوام کا مفاد عزیز ہے۔ جو تھوڑا بھی اچھا کام کرے گا ہم اسکو سلام پیش کریں گے اور جو اسے لوٹنے کی کوشش کرے گا اس کی لغنت ملامت کرنے میں تامل نہیں کریںگے چاہے وہ لوگ اپنے قریبی رشتے دار ہی کیوں نہ ہوں۔ پرویز مشرف صاحب کا پہلا غبوری دور بہت ہی اچھا تھا کیونکہ ان کے کابینہ میں سلیکٹڈ لوگ تھے جو قابل اور ایماندار تھے۔۔ جنرل الیکشن کے بعد جو لوگ آئے ان کی کارکردگی کوئی قابل تعریف نہیں تھی، پھر بھی وہ حکومت پہلی والی اور بعد میں آنے والی مرکزی حکومتوں کے مقابلے کئی گنا بہتر تھی۔البتہ سابق صوبہ سرحد میں مولوئیوں کی صوبائی حکومت  میں دہشت گردوں کو پنپنے کا موقع ملا اور غیر قانونی اسلحہ جمع ہوا جس نے ہمیں نصف صدی پیچھے دھکیل دیا۔ عوم کی ایک بڑی غلطی یہ ہے کہ وہ ہر نئی حکومت سے یہ امید وابستہ کرتی ہے کہ وہ اپنے پانج سالہ مدت حکمرانی کے اندر سب کچھ درست کر دے گی۔ کرپشن کی جملہ اقسام یعنی کام چوری، اقرباپروری، رشوت خوری ، میرٹ کی خلاف ورزی، ڈاکہ اور چوری، قتل و غارت گری، بے انصافی وغیرہ  جرائم کا اکدم خاتمہ ہو جائے گا کیونکہ انہوں نے الیکشن لڑتے وقت وعدہ کیا تھا۔ عوام کا حافظہ کا کمزور ہونا ایک حقیقت ہے۔ خاص کرکے پاکستانی قوم کے پاس تو حافظہ نام کی کوئی چیز ہی نہیں۔ بھٹو مرحوم نے روٹی کپڑا مکان کا وعدہ کیا جو کھبی پورا نہیں ہوا مگر پاکستانیوں نے اس کے کرپٹ داماد تک کو اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھالیا۔ نواز شریف کو تیسری مرتبہ وزیر اعظم اور ان کے بھائی شہباز شریف مدتوں سے پنجاب کی حکمرانی دے رکھی ہے حالانکہ انہوں نے اپنے وعدوں کا ایک فیصد بھی پورا نہیں کیا۔ 2013 کے انتخابی مہم کے دوران شہباز شریف نے چھ مہینوں، ایک سال اور دو سال کے اندر اندر لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کرنے کا اعلان کیا اور نہ کرنے کی صورت میں اپنا نام تک بدلوانا کا عہد کیا۔ مگر آج بھی لوڈ شیڈنگ کا عذاب بدستور موجود ہے اور شہباز شریف شہباز شریف ہی رہا۔ عوام میں کسی نےآج تک ان کا نام بدلوانے کی کوشش نہیں کی۔ صوبہ سرحد میں مولوی صاحبان کی حکومت آگئی تھی اورہم خوش ہوگئے تھے کہ سادگی اور ایمانداری کی حکومت ہوگی۔ ان کا محبت خان مسجد میں بیٹھ کر حکومت چلانے، گورنر ھاؤس کو جامعہ بنانے  اور بائیسکل پر ہی سواری کرنے کا وعدہ محض وعدہ ہی رہا حالانکہ یہ لوگ تو مذہبی پیشوا ہیں۔ ان کو اپنا وعدہ ہر صورت  نبھانا  چاہیے تھا۔ مختصر بات یہ ہے کہ پاکستان کی 69 سالہ تاریخ میں کسی سیاسی پارٹی اور اس کے سربراہ نے عوام سے کیا ہوا وعدہ نہیں نبھایا ہے تو آج ہم عمران خان پر کیوں برس رہے کہ اس نے گُڈ گورننس کا وعدہ پورا نہیں کیا۔ ہمیں اتنا تو دیکھنا چاہیے کہ دوسرے صوبوں کے مقابلے میں کے پی کے کی حکومت کی کار کردگی بہتر ہے۔ گزشتہ لمبے عرصے کے دوران ہمارے خون میں کرپشن کا زہراتنا زیادہ شامل ہو گیا ہے کہ اتنے کم وقت میں اس کا ڈائلیسز ممکن نہیں۔ ہر بری عادت بہت جلد پختہ ہوجاتی ہے اور پختہ عادت کو چھڑوانا اتنا آسان کام نہیں ہوتا۔ مرکزی حکومت کے ساتھ روز آول سے سیاسی لڑائی چل رہی ہے۔ مرکز کے ساتھ اختلاف رکھتےہوئے  بھی جتنا کچھ کے پی کے میں ہوا ہے وہ پنجاب، بلوچستان اور سندھ میں ناپید ہے۔ اس لیے ہمیں تھوڑا صبر سے کام لینا چاہیے اور پی ٹی آئی کی حکومت کا ٹینیور پورا ہونے کے بعد فیصلہ کرنا ہوگا کہ پی ٹی آئی کی حکومت سابقہ حکومتوں کے مقابلے میں کتنی کامیاب رہی یا کتنی ناکام رہی؟]]>

You might also like
1 Comment
  1. Shah Abdul Qadir Jillani says

    I am glad that finally Aseer sahib realised some good things done by a political party. He acknowledged what this political party has been doing in the province after coming into power. It was no less than a challenge for PTI because those running the show in the province are related to corrupt politicos in one way or another. Some even had a blamished political track record. But even then they have delivered within a short span of three years it is no less than a blessing. One can expect from Imran Khan that if he succeeds in dry cleaning the corrupt tolas he will certainly acheive his dream of a corruption free Pakistan. Now, let us go Chitral. What sort of leaders we needed there. We needed honest and brave leaders there. And it could only be possible if people like Aseer start challenging the status quo politicians there. Challenging to status quo politicians means chosing the right party. The right platform, if there is any, is without any doubt is PTI. If right people like Mr Aseer succeeds in taking right decisiin at the right time we will certainly get rid of the corrupt tolas. The ball is now in your court, Aseer sahib – go for a political suicide by associating yourself with a party which has no future or lead from the front by chosing a platform through which you can give tough time to your rivals quite easily.

Leave a Reply

error: Content is protected!!