Chitral Today
Latest Updates and Breaking News. Editor: Zar Alam Khan.

مجھے ہارنے نہ دو

خواتین میں زیادہ پائے جانے والی کچھ عام نا پسندیدہ عادتیں ہیں جن سے میں ہمیشہ نالان رہا ہوں۔ ان میں پہلے نمبر پر تو ان کی “غیبت گوئی” ہے۔ اس بیماری میں ہم مرد بھی کافی پیش پیش ہیں البتہ خواتین کے مقابلے میں ہماری غیبت گوئی بہت معمولی قسم کی ہوتی ہے۔ تاہم بعض مرد حضرات خواتین کو بھی اس فن میں پیچھے چھوڑجاتے ہیں۔ ایسے مردوں سے واسطہ اتنا زیادہ نہیں پڑتا۔

جب کبھی بدقسمتی سے سامنا ہوتا بھی ہے تو ان سے پیچھا چھڑانے میں اتنی مشکل پیش نہیں آتی۔ مگر خواتین تو ہر گھر میں موجود ہیں۔ 1998 کی مردم شماری کے مطابق اگرچہ خواتین کی تعداد مردوں سے کم ہے لیکن عام دیکھنے میں خواتین کی تعداد ہی زیادہ نظر آتی ہے۔شاید اس وجہ سے کہ مردوں کا گھروں سے دور رہنے کا تناسب عورتوں سے زیادہ ہے۔

اس سے پہلے کسی تحریر میں نے ” غیبت گوئی” کی طرف اشارہ کیا تھا جس میں خود کی غیبت گوئی کو چھپانے کی کوشش نہیں کی۔ بہرحال میں غیبت کرتا ہوں تو اخبار کے ذریعے ان لوگوں تک پہنچانے کی کوشش بھی کرتا ہوں تاکہ کوئی جواز نکل آئے اپنی غیبت کو دوبدو گفتگو کا رنگ دینے کا، چاہے جوازکمزور ہی سہی۔ میں نے یہ بھی بتایا تھا کہ ہمیں غیبت کے گناہ میں مبتلا کرنے میں بڑا ہاتھ ہماری سیاست کا ہے جب ہمارے منتخب نمائیندے اپنے عہدو پیمان بھول جاتے ہیں اور الیکشن جیتنے کے بعد جنات کی طرح ہماری نظروں سے غائب ہوجاتے ہیں تو پھرہمارے پاس ان کے پیٹھ پیچھے بول کر اپنا دل ہلکا کرنے کے سوا کچھ نہیں بچتا۔ یہ بھی ایک طرح کا جواز بنتا ہے کیونکہ ہم نے ان کی جیت کی خاطر دوسرے بہت سے لوگوں سے جھوٹ بولے ہوئےہوتے ہیں۔ اب ان غریب سادہ لوح دیہاتیوں کے سامنے اپنے نمائیندوں کی غیبت نہ کریں تو کیا کریں؟ ہماری خواتین کو سیاست سے اتنی دلچسپی نہیں ہوتی اور اس قسم کی گفتگو بھی پیٹھ پیچھے نہیں کرتی ہیں۔ وہ تو کہیں سے بھی “عنوان غیبت” ڈھونڈ لاتی ہیں اور پھر اس پر دل کھول کر تبصرہ کرتی ہیں۔

پہلے زمانے میں صرف ملنے ملانے کے موقعے پر طبع آزمائی کیا کرتی تھیں ۔ گھر کے اندر مردوں کی موجودگی میں اگر موقع کم ملے تو مہمان کو وداع کرنے کے بہانے گھر سے باہر گنٹھوں کھڑے کھڑے، کبھی وزن ایک پیر پر کبھی دوسرے پر ڈالتے ہوئے وہ کمی پوری کرتے ہی رہتی تھیں اوراب بھی کرتی ہیں۔ زمانے کی تیز رفتاری اور فرصت کی کمی نے ان کو ملاقاتوں کا موقع کم ہی دینے لگی ہیں۔ ایسے مواقع گاہے بہ گاہے میسر آتے ہیں۔ آج کل موبائل فون نے ان کے لیے آسان راستہ ہموار کر رکھا ہے۔ اگر بیلنس ڈلوانے کی ذمے داری بے چارے شوہر کی ہو تو پھر جب تک فون کی توانائی کام دیتی ہے اس وقت تک بولتی رہتی ہیں اور کسی کے گڑھے مردے اکھیڑنے میں کمزوری نہیں دکھاتیں۔۔ ہمارے ملک میں توانائی کا ویسے بھی بحران چل رہا ہے۔ اس کا بیشتر حصہ چوروں اور “بڑوں” کی صنعت گری ہے، اس لیے ہم جیسے لوگ اس کا زیادہ شکار رہتے ہیں۔ ہاں! اگر باپ کی جیب سے بیلنس کی رقم نکلتی ہو تو بیٹیاں تھوڑا انصاف کرتی ہیں۔ اگر فون بھی شوہر نامدار کا ہو اور بیلنس ڈالنے کی ذمے واری بھی تو شوہر مسکین پر ظلم ہی ظلم کہا جاسکتا ہے۔

بیگم صاحبہ کی باتیں ختم ہونے کے ساتھ ساتھ موبائل کا بیلنس، چارج اور آپ کی طرف آنے والی کالیں سب کے سب ختم ہو جاتی ہیں۔ یہ تجربہ اگر اکیلا میرا ہی ہے تو —————؟ نہیں! مجھے معلوم ہے کہ بیگم صاحبات کے روبرو بات ہو تو کوئی مائی کا لال سچ بولنے کی جرات نہیں کرسکتا۔ میں بھی چپکے سے یہ سب کچھ لکھ رہا ہوں۔ اس دور کے جوانوں کے متعلق مجھے کافی معلومات حاصل ہیں۔ وہ تو اپنی بیگمات کے سامنے رات کو رات تک نہیں بول سکتے۔ بیویوں کے “حضور” میں بھیگی بلی بنے رہتے ہیں۔ میری طرح کی باتیں تو وہ خواب میں بھی نہیں کرسکتے اور اگر کریں گے بھی تو لمحہ لمحہ دھڑکتے دل کے ساتھ چونکتے ہوئے چند الفاط بولنے کی ہمت کریں گے تو الگ بات ہے۔

کھورا میں ایک ضرب المثل ہے ” تان پکھوڑوت اف گوم مہ کیانی کوس؟” کہتے ہیں کہ ایک شوہر نے بیوی کی”کڑی” پر اعتراض کیا اور پتلی کڑی کو پتلی کہہ ڈالا۔ بیوی نے ان کی پٹائی کی۔ اس دوران مرد کی ٹوپی گر گئی اور خود بھاگ کر جان بچائی۔ اب چھت پر چڑھ کر کوماڑ سے جھانک کر بیوی سے کہتا ہے، ” اوہ موش کیہ! اوچوغنوتے اچوغون ریم۔ تان پکھوڑوت اف گوم مہ کیانی کوس؟” میں مرد ہوں۔ پتلی کو پتلی کہوں گا۔ میں اپنی ٹوپی کے لیے نیچے آوں گا، آپ میرا کیا بگاڑیں گی؟ خواتین کی دوسری عادت ان کی” بسیار گوئی” ہے جس میں ایکدوسرے کو بولنے کا موقع نہیں دیتیں۔ سب کے سب بولتی رہتی ہیں،سننے والا یا کوئی گربہ مسکین سا شوہر ہوگا یا چھوٹی بچیاں۔ میں حیران ہوں کہ وہ ایک دوسرے کی باتوں کو کس طرح یاد رکھتی ہیں۔ اگر یاد رکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتی ہیں تو پھر بولنے کا فائدہ کیا ہے؟ یہ بات میری سمجھ میں نہیں آرہی۔ آجکل حالات حاضرہ سے با خبر خواتین کی کمی نہیں۔ ان کے سامنے یہ بات نہیں کہی جاسکتی کیونکہ وہ فوراً ہماری توجہ اپنی معزز اسمبلیوں کی طرف موڑتی ہیں جہاں ہم سب اپنے جینٹس پارلیمنٹیرینز کویکبارگی بولتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ تو خواتین کے سامنے شرمندگی سی ہوتی ہے۔ ہماری اسمبلیوں کی حالت خواتین کی” خالص محفل” سے دو قدم آگے نظر آتی ہے۔

ہم اپنی خواتین کو بعض اوقات “موش” بن کر چپ کرانے کی ہمت بھی کرتے ہیں لیکن ہمارے ممبروں کو اسپیکر صاحبان بھی چپ بھی نہیں کراسکتے اور اجلاس برخواست کرکے اپنی جان چھڑا لیتے ہیں۔ خواتین کا باتوں میں ایک دوسرے کو موقع نہ دینا ان کا ذاتی معاملہ یا فطری تقاضا ہے۔ اسمبلی میں بولنے کا موقع نہ دینا ذاتی یا فطری معاملہ ہرگز نہیں ہے۔ یہ عوام کے حقوق پر کاری ضرب ہے۔ ہمارے ہر ممبر کو بولنا چاہیے اوران کو سننا بھی چاہیے۔ اسی کام کے لیے تو ہم ان کو اسمبلی میں بیجھتے ہیں اوروہ اس غریب قوم کے خزانے سے اس خدمت کا پورا معاوضہ وصولتے ہیں۔ ان کا شورشرابا کرکے ہمارا قیمتی وقت اور پیسہ برباد کرنا مجرمانہ فعل ہے۔ اس قسم کی حرکت “غیبت” سے کم گناہ نہیں ہے۔

ہمارے ممبر صاحباں اور ہماری خواتین اس گناہ سے بچنے اور اپنا اور ہمارا قیمتی وقت بچاکر مفید سرگرمی میں لگانے کی کوشش کریں تو اللہ بھی خوش ہوگا اور مرد اور عوام بھی خوش رہیں گے اور ان کا اپنا ضمیر بھی مطمئین رہے گا۔ میرا تیسرا گلہ ان کی فضول خرچی سے متعلق ہے۔ ہر خاتون یہ چاہتی ہے کہ وہ روز نیا جوڑہ پہن لے۔ نئی جوتی ہو۔ نئی چادر ہو۔ سونے کے زیوارات زیب تن ہوں۔ غرض اگر یہ ممکن ہوتا تو روز اپنے لیے نئی نئی صورتیں بنا لیتیں۔ ہماری شہری خواتین لیپا پوتی کے ذریعے اس کی کوشش کرتی رہتی ہیں ( میں سادگی پسند خواتین اور بچیوں سے معافی چاہتا ہوں۔ ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابرہے)۔

شاید یہ ان کی فطرت کے ساتھ جڑی صفت ہے۔ کسی بھی گھر میں بچیوں کے کپڑوں اور جوتیوں کی تعداد بچوں سے کہیں بڑھ کر ہوتی ہے اور رنگ و روغن کے سامان آنگنت۔ اس مد میں بچارے خاوند یا باپ یا بھائی کا دگنا بجٹ خرچ ہوتا رہتا ہے۔ عورت خود کماؤ ہے تو اور بھی زیادہ فضول خرچی کا مظاہرہ کرتی ہے۔ میری رائے خواتین کیلیے قابل اعتراض اور متعصبانہ ہوسکتی ہے، مگر ان کے لیے نہیں جن کو یہ معلوم ہے کہ بندہ ناچیز خواتین کا کٹر حامی رہا ہے اور ہے۔ ثبوت کے طور پر “ژورنامہ” اور اس موضوع پر میری تحریریں اور عملی کردار گواہ ہیں۔ حمایت کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ ہر عیب سے پاک پاکیزہ ہیں۔ ان کی غلطیوں کی نشاندہی بھی اپنا فرض سمجھتا ہوں، ایک باپ،بھائی اور استاد کی حیثیت سے ان کی بھلائی چاہتا ہوں۔ نئے نئے جوڑوں اور دوسرے ملبوسات اور رنگ سازی پر خرچ ہونے والی رقم بچائیں گی تو یہ ان کے بچوں کی بہترین تعلیم و تربیت میں کام آسکتی ہے اور ان کی زندگی بن سکتی ہے۔

یہاں پر ایک اور آہم ترین بات یاد آرہی ہے۔ اسے بھی شیئر کرنا چاہوں گا۔ اگرچہ یہ بسیار گوئی اور فضول خرچی سے بڑھ کر ہے تاہم یہ ابھی عام نہیں ہوئی ہے ۔ اس وقت محدود پیمانے پر نظر آرہی ہے۔ ہماری ایک چند بچیوں کا خیال ہے کہ وہ اپنی حرکت اور عمل میں مکمل آزاد ہیں۔ وہ جیسا چاہیں زندگی گزار سکتی ہیں، ان پر کوئی قدغن نہیں ہونی چاہیے۔ ان کا یہ خیال درست نہیں ہے۔ اگر ہم مسلمانی کا دعویٰ کرتے ہیں تو اسلام نے چند ایک ضوابط بھی عائد کردیا ہے ان کی پابندی فرائض میں شامل ہے۔ ان میں ایک “پردہ” ہے۔ میں یہاں پر پردے کی تشریح پہ جانا نہیں چاہتا کیونکہ تشریح میں فروعی اختلافات موجود ہیں البتہ عورت کو غیر محرموں سے اپنا بناؤ سنگار چھپانے کی قرآنی ہدایت پر سب کو ایمان ہے۔

اس کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ صنف مخالف کی نظر پڑنے کی صورت میں اس کے دل میں غیر اخلاقی خیال پیدا نہ ہوجائے۔ جس طرح خواتین کو پردے کی ھدایت ہے اسی طرح مردوں کو بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھنے کی تاکیدی حکم ہے۔ ہمارا ازلی دشمن شیطان ہر انسان کے پیچھے پڑا ہوتا ہے اس لیے مرد اپنی آنکھوں پر قابو نہیں پاسکتا جب عورت عام مذہبی اور سماجی روایات سے ہٹ کر نظر آجائے۔ مثال کے طور پراگر چترالی خاتون برسرے راہ گاتے، ناچتے، پتلوں یا اسکارٹ پہنے اور تنگ اور باریک قمیض میں سینہ تانے نظر آجائے تو اس کی طرف لاشعوری طور پر نظریں اٹھ جاتی ہیں۔ اگر بندہ خدا ترس ہے تو لاحول پڑھتا ہے اگر نہیں تو “چٹخارے” لیتا ہے۔ یہ آخری حرکت بہت ہی گندھی لگتی ہے کیونکہ یہ ہمارے مذہب اور کھو ثقافت دونوں کے چہروں پر کالا دھبہ ہے۔ اس لیے بچیوں سے میری ہاتھ جوڑ کر گزارش ہے کہ اپنی مذہبی اور ثقافتی اقدار کے اندر رہتے ہوئے ترقی کی راہیں ڈھونڈ لیں۔ اللہ ہم سب پر رحم فرمائے

You might also like
1 Comment
  1. Afzal Aman says

    مرد آنکھیں نیچی نہیں کرنا چاہتا، عورت پردہ کو جہالت سمجھتی ہے , مگر دونوں کو احترام اور عزت کی تلاش ہے

Leave a Reply

error: Content is protected!!