مقامات مقدس کی زیارت

14

شیرولی خان اسیرؔ

ایک عرصے سے یہ تمنا تھی کہ اللہ پاک مرنے سے پہلے مجھے ایک موقع دے کہ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کا سفر کرسکوں اور ان مقامات کا طواف اور زیارت کرسکوں جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو پیارے ہیں۔ اس سال 4 فروری کو خداوند پاک نے یہ موقع فراہم کر ہی دیا۔ الحمداللہ! ہم جیسے لوگوں کے پاس پہلے تو اتنا پیسہ نہیں ہوتا کہ حج یا عمرہ کے بھاری بھر کم اخراجات برداشت کر سکیں۔

میری اس بات کو میرے بہت سے جاننے والے نہیں مانیں گے یہ کہتے ہوئے کہ ایک آدمی سرکاری ملازمت کے سکیل 20 میں ریٹائر ہوا ہو اس کے پاس حج کرنے کے پیسے کیونکر نہیں ہو سکتے؟ میرے ان دوستوں کو سمجھاتے سمجھاتے بہت سارا وقت نکل جائے گا اس لیے اپنے موضوع کی طرف لوٹ آنا ہی بہتر ہے۔ سرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد میں اور بیگم نے یہ معمول بنایا ہے کہ سردی کے تین ساڑھے تین مہینے کراچی میں گزارتے ہیں۔ اس مرتبہ نومبر کے آخری ہفتے ہم گھر سے نکلتے وقت ارادہ کیا تھا کہ امسال بہر صورت عمرہ کے لیے جانے کی سنجیدہ کوشش کریں گے۔یہ فیصلہ ہم نے اپنے تک محدود رکھا تھا۔

زاہدؔ کو بتانا بھی ضروری خیال نہیں کیا۔ دسمبر ایبٹ آباد میں گزار کر کراچی روانگی کے موقع پر ہم نے اس ارادے سے اپنے بچیوں ڈاکٹر زہرہ ولی خان اور ڈاکٹر رئیسہ خان کو آگاہ کیا تو انہوں نے بھی ہمارے ساتھ عمرہ کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ ہم نے اپنے بچوں کی معصوم خوہشات کھبی رد نہیں کیں۔ اس لیے اس نیک خواہش پران کی بات ماننی پڑی ۔ پھر فون پر ڈاکٹر زبیدہ سرنگؔ سے رابطہ کیا اور اپنے اور ان کی بہنوں کے ارادے سے آگاہ کیا۔ تو کہنے لگی” بابا! یہ میری اور صاحب کریم کی نیت تھی کہ ہم آپ اور ممی کو سیر سپاٹے کے لیے ملک سے باہر بھیج دیں گے۔ اب آپ نے عمرہ کے لیے سعودیہ جانا چاہتے ہیں تو ہمیں اس کی اجازت دیں کہ آپ دونوں کےعمرے کا سارا خرچہ ہم اٹھائیں ” میں نے دلیل دینے کی کوشش کی ” بیٹا! عمرہ پر خرچ ہم خود اٹھائیں گے کیونکہ اپنی کمائی سے یہ فریضہ ادا کرنا درست ہے”۔زوبی کہنے لگی، بابا! کیا ہماری کمائی آپ اور امی کی کمائی نہیں ہے؟ ہماری اس خواہش کو رد نہ کریں۔ آپا زہرہ ولی اور جیجہ کا سفر خرچ بیشک آپ لوگ اٹھائیں”۔ بچی کی زبان یہ بتا رہی تھی کہ ان کی اس خواہش کو رد کرنا کفران نعمت ہونے کے ساتھ ساتھ بچوں کا دل توڑنے کے مترادف ہوگا۔

اس کے بعد فیصلہ پکا ہوا اور ہم اپنے ویزہ وغیرہ معاملے طے کرنے لگے۔ چونکہ مجھے معلوم نہ تھا کہ ٹریول ایجنسیاں یہ سارا کام پورا کرتی ہیں اوراس “آہم اور مشکل فرض “کی ادائیگی میں زائرین کی خدمت کرکے “دونوں دنیاؤں کو دونوں ہاتھوں سے سمیٹنے کی “سعادت ” حاصل کرتے ہیں۔ اس لیے مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں رہائش کے بارے معلومات حاصل کرنے کے ارادے سے مکہ میں مقیم اپنے ایک بہت ہی پیارے شاگرد ڈاکٹر سعید احمد سے فیس بک کے ذریعے رابطہ کیا۔ اس نے جب میرے ارادے کا سنا تو کہا ” سر! میری چھوٹی سی عارضی جھونپڑی ہے، آپ کو ہوٹل میں ٹھہرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ ہمیں خدمت کا موقع دیجیئے۔اللہ تعالیٰ نے یہ موقع ہمیں دیا ہے تو آپ منع مت کیجیے”۔ ڈاکٹر سعید کے الفاظ میں خلوص کی مٹھاس تھی اس لیے ان کی بات مان لی۔ ویسے بھی اس بچے کے ساتھ وقت گزاری کا شوق تھا کیونکہ یہ ایک بہادر اور انتہائی لائق شاگرد ہے۔ اس نے جن حالات کا مقابلہ کرکے ڈاکٹر بننے میں کامیابی حاصل کی ہے وہ ایک بڑا لمبا موضوع ہے اور قابل تقلید ہے۔ یہاں پر اس کا مختصر سا تعارف پیش کرنا میرا فرض بنتا ہے تاکہ دوسرے ہمارے برخوردار اس سے سبق حاصل کریں۔

ڈاکٹر سعید ایک ایسی منکسرالمزاج اور میٹھی شخصیت کا نام ہے جو اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر لگانا بھی نہیں چاہتا اس خوف کے سبب سے کہ کہیں اس لفظ سے غرور کی بو نہ آجائے۔ ان کے ساتھ پہلی ملاقات کرنے والے بندے کو یہ نہیں پتہ چلتا کہ یہ ایم بی بی ایس کی ڈگری ہولڈر، انتہائی قابل سینئر ڈاکٹر ہے۔ڈاکٹر سعید نے جب میٹرک کیا تو ان کے والد مولانا محمد سعید دنیا سے گزر گئے۔ وہ دارلعلوم دروش کے صدر کی حیثیت سے ریٹائرڈ تھے۔ انتہائی شریف انسان تھے۔ ان کا تعلق موڑکھو کے ایک معزز گھرانے سے تھا، البتہ دروش میں سکونت پذیر یوگئے تھے۔ سعیدؔ اپنے والدین کا سب سے بڑا بچہ تھا۔ ان سے چھوٹے پانج بہنوں،دو بھائیوں اور بیوہ ماں کی کفالت کا بھاری بوجھ اس کے کندوں پر آ پڑا۔ اس نے پڑھنا چھوڑ دیا اور ایک پرئیویٹ سکول میں ٹیچر لگ گیا۔ اس عرصے کے دوران میرا تبادلہ ہائر سیکنڈری سکول دروش میں ہوا۔

ان کا ایک ماموں عبدالعظیم ایس ای ٹی پوسٹ پر میرےسٹاف میں تھا۔ اس نے ایک دن یہ ساری کہانی مجھے سنائی۔ میں نے اس بچے کو اپنے دفتر بلایا اور اس کے ساتھ گفتگو کے بعد اندازہ لگا لیا کہ بچے میں ذہانت کے ساتھ پڑھنے کا بے حد شوق ہے اور یہ بھی جان لیا کہ اس بچے کی تھوڑی سی مدد کی جائے تو یہ اپنی مشلات پر قابو پاسکتا ہے اور اپنا مقصد حاصل کرکے اپنا کیرئیر محفوظ کر سکتا ہے۔ میں نے اسےسال آول میں داخلہ دلادیا اور ہم نے کچھ اس طرح کا انتظام کیا کہ سعید نے پڑھائی کے ساتھ ملازمت کو بھی جاری رکھ پایا۔ یوں اس نے ایف ایس سی امتیازی نمبروں کے ساتھ پاس کیا۔ اب میڈیکل کالج میں داخلہ اور گھر سنبھالنا ایک ساتھ ممکن نہیں تھے۔ لیکن میں نے اسے تاکید کی بیٹا! بنک وغیر سےقرض لے کر بھی ایم بی بی ایس کرلو۔ اس نے کس طرح سے میڈیکل کالج اور اپنے اور اپنے بہن بھائیوں کی تعلیم اور گھر کے دوسرے اخراجات اٹھائے وہ خود ہی بتا سکتا ہے۔

ہم نےعمرہ کیلیے صرف چار دن رکھا تھا جو مختصر ثابت ہوئے۔ ورنہ اس کہانی کا خاکہ پورا ہو جاتا۔ آج یہ بچہ مکہ مکرمہ میں بحیثیت ڈاکٹر خدمات آنجام دے رہا ہے اور ایک بہت ہی پیارے بیٹے محمد کا باپ بھی ہے۔ اللہ ان کے گھر کو گلزار بنادے، آمین ہم کراچی سے 4 فروری کے ساڑھے بارہ بچے سعودیہ ایر لائنزمیں سوار عازم جدہ ہوگئے۔ عمرہ کے مناسک کے مطابق ہمیں جدہ میں اترنے سے ایک گھنٹہ پہلے احرام باندھنا تھا اور نیت کرنا تھی۔ البتہ ڈاکٹر سعید نے بتایا تھا کہ کراچی ایرپورٹ میں احرام باندھ لینا بہتر ہوگا۔ چونکہ ایر پورٹ پر ویٹنگ لاؤنج میں ٹھہرنے کا وقت نہ ملا۔ ہم مختلیف مراحل سے گزر کر پیسنجر لاؤنج میں داخل ہوئے ہی تھے کہ بورڈنگ کا حکم ملا۔ اب مجھے جہاز کے اندر احرام باندھنا تھا جو جہاز کے تنگ واش روم میں خاصا مشکل ثابت ہوا۔ بہرحال کسی نہ کسی طرح ہم نے عمرہ کی پہلی شرط پوری کی۔ جدہ میں اترتے ہی متعلقہ ٹریول ایجنسی کی ٹیکسی ہمیں لے کر مکہ کے ہوٹل الحجرہ پہنچانا تھا لیکن ہمیں نادان سمجھ کر منی بس میں بٹھایا گیا جس کے بھرنے تک پورے دو گھنٹے ہمیں اس بس میں بیٹھے انتظار کرنا پڑا۔

جن بندوں سے رابطہ کے فون نمبرز ہمارے پاس تھے انہوں نے ہمارا فون اٹھایا ہی نہیں۔ اس مقدس جگہے میں بھی ہمارے پاکستانی بھائیوں کو فراڈ کے سوا کچھ نہیں سوچتا ہے۔ ہمیں بس میں ٹرانسپورٹ کرکے کار کے چارجز ہتھیانے کی چال تھی جو اس وقت ہماری سمجھ میں نہیں آئی۔۔ دو گھنٹے اس منی بس کے اندر حبس بے جا میں رہنے کے بعد وہ گاڑی آخر کار چل پڑی۔ راستے میں کسی پنجابی بھائی کا ہوٹل تھا۔ ہمیں لے کر اس کا یاترا کرایا۔ ہمارے احتجاج کے باوجود ڈرائیور نے اس ہوٹل میں صبح کا چھولے والاا ناشتہ کیا۔ یوں ڈیڑھ گھنٹےکا راستہ اس نے تقریباً تین گھنٹے میں طے کرکے ہمیں لے کر مزکورہ ہوٹل پہنچادیا۔ شیشے سے باہر دیکھا تو برخوردارم ڈاکٹر سعید پر میری نظر پڑی اور پریشانی دور ہوگئی۔وہ بیچارہ رات بانج بجے سے ہمارا انتظار کر رہا تھا۔ گاڑی سے اترتے ہی ہماری گناہگار نگاہیں حرم کے مینار پر پڑیں اور ہم نے لبیک اللھم لبیک کا ورد کیا۔ ہم رات بھر سو نہ سکے تھے اس لیے تھکاوٹ محسوس ہورہی تھی۔ اس کے باوجود ہم نے فیصلہ کیا کہ سب سے پہلے عمرہ ادا کریں گے۔ ڈاکٹر سعید نے ایک اور برخوردار شعیب وارجنیغ کو ہمارا معلم مقرر کیا جن کا تعلق مولکھو سے ہے۔۔

ہمیں ناشتہ کرانے کے بعد وہ اپنی ڈیوٹی پر چلے گئے اور ہم اس برخوردار کی معیت میں مسجد حرام کا رخ کیا۔یہاں سے ہم پیدل کعبہ شریف پہنچے اور زائرین کے جمع غفیر کیساتھ کعبہ کے گرد سات چکر لگائے۔ حجر اسود کو چھونے کا موقع نہیں دیا گیا کیونکہ وہاں جو طاقت ور جوان ہوتا ہے وہ کسی نہ کسی طرح اوروں کو دھکا دے کر کہنی مار کر اپنا راستہ بنا لیتا ہے اور بمشکل حجر اسود کا طواف کر لیتا ہے، ہم جیسے بڈھوں کیلیے اور وہ بھی خواتین ساتھ ہوں اس متبرک پتھر کا طواف ممکن نہیں ہوتا ہے۔ اشارے سے ہم نے طواف ادا کیا، الحمدللہ! مصلی ابراہیمی پر دو رکعت نفل پڑھنا بھی ممکن نہ ہوا۔ اس کے قریب جگہہ ملی تو ہم نے دو رکعت نفل ادا کیا اور اللہ کا شکر ادا کیا۔ اس کے بعد ہمیں سعی کرنا تھی یعنی کوہ صفا اور مروہ کے درمیان سات پھیرے لگانے تھے جو نسبتاً آسان لگا۔ یہ دونوں پہاڑ شیشے کے فریم کے اندر محفوظ کئے گئے ہیں اور درمیانی جگہہ چھت ڈال کر ڈھانپ لی گئی ہے۔جگہہ کھلی ہونے کی وجہ سے دھکم پیل سے بچ گئے اور سات چکر آسانی کے ساتھ پورا کیا۔ اس کے بعد بال کٹوانے کی آخری شرط پوری کرنا تھی جسے ہم نے سعید کے گھر پہنچ کر پورا کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ کچھ کاروباری لوگ اس مقدس مقام کے اندر کوہ صفا کے سامنے ہی بال کٹوارہے تھے جو مجھے بہت ناگوار لگا۔ اب ہمیں ڈاکٹر سعید کے گھر کی طرف جانا تھا۔ مسجد حرم سے باہر نکلے تو ایک دوسرا برخوردار ہمارے انتظار میں تھا جس کا نام اسرارؔ ہے اور اس مقدس گھر کے اندر ملازم ہے۔ شعیب کو اپنی ڈیوٹی پر جانا تھا اس لیے یہاں سے اسرار کی ڈیوٹی شروع ہوگئی۔

اس نے ہیؐ ٹھنڈا مشروب پلایا۔ پھر ہمیں ٹیکسی میں بٹھانے والا ہی تھا کہ ایک دوسرے بھائی کا فون آیا کہ وہ پہنچنے والا ہے۔ ہم نے اس کا انتظار کیا تو پراڈو گاڑی چلاتے ہوئے پہنچ گیا۔ گاڑی سائیڈ میں لگاکر گاڑی سے اترا تو مجھے مکمل طور پرعربی لگا کیونکہ وہ سربی لباس میں تھا۔۔ ہم سے ملا تو اسے بہت ہی سویٹ آدمی پایا۔ ان کا نام مرادؔ اور ان کا تعلق مولکھو کے وریجون سے ہے اور جو عرصہ 35 سالوں سے مکہ میں گاڑی چلانے کا کام کرتے ہیں۔ انہوں بڑی عزت و احترام کے ساتھ ہمیں ڈاکٹر سعید کے گھر جبل نور پہنچادیا جہاں محمد ابن سعید اور اسکی امی ہمارے منتظر تھے۔ سعید کی اہلیہ ڈاکٹر ذہرہ ولی کی بڑی بے تکلف سہیلی اور کلاس فیلو رہ چکی ہے اور ان کے والدین ژوغور چترال میں کوئی ڈیڑھ سال ہمارے اچھے پڑوسی تھے۔ عرصے بعد یہ دونوں بچیاں جب مل گئیں تو ان کی خوشی قابل دید تھی۔ مسز سعید بڑی پیاری اور سگھڑ بچی ہے۔ ان سے ملنے کے بعد میری بچیوں کی تعداد میں ایک اور اچھی بچی کا اضافہ ہوا، الحمداللہ! پہلی ملاقات میں ہی میری دوستی 7 ماہ کے محمد کے ساتھ پکی ہوگئ۔ اس سے ملتے ہی محمدؔ مجھ سے ایسا مانوس ہوگیا کہ میری گود چھوڑنے کو تیار نہیں ہوا اور میرا بھی اس بچے کے ساتھ اتنا پیارہوگیا کہ مکہ مکرمہ سے واپسی کے وقت مشکل سے اپنے آنسو روک پایا تھا۔ اللہ اسے لمبی اور کامیاب زندگی عطا فرمائے، یہی میری دعا ہے۔

چونکہ ہم بہت ہی مختصر وقت کے لیے گئے تھے اس لیے اسی پہلے دن سے ڈاکٹر سعید اور اسکی بیگم مکہ کے اندر ضروری مقامات ہمیں دکھانے لے گئے۔ ہم نے منیٰ میں خیمہ بستی کا نظارہ کیا جو دور سے ایسا لگتا ہے جیسا کہ اس وقت حجاج ان میں قیام پذیر ہوں۔ تا حد نگا پھیلے ہوئے لوہے کی چادروں کے بنے ایک سائز اور رنگ کے خیمے دیکھنے والوں کی آنکھوں کو خیرہ کرتے ہیں ۔ پھر ہم نے مذدلفہ دیکھا جہاں حجاج کھلے آسمان تلے رات گزارتے ہیں اور شیطان کو مارنے کے لیے کنکرے لیتے ہیں۔ جسے کو معشرالحرام بھی کہتے ہیں۔ اس کے بعد جمرات دیکھی جہاں حجاج شیطان کے خیالی مجسمے کو کنکرے مارتے ہیں۔ یہ جگہ بھی کنکریٹ کی چھت سے ڈھانپ لی گئی ہے۔ میرا خیال تھا کہ یہ جگہ کھلی ہوگی۔ اس کے بعد میدان عرفات گئے اور جبل رحمت دیکھا۔ یہاں ہم نے مغرب کی نماز پڑھی۔ یہاں گاڑی پارک کرنے کی وسیع جگہہ موجود ہے۔ یہیں پر مشہور ‘نہر زبیدہ’ کے بقیات کا نظارہ بھی کیا جو تقریباً بارہ سو سال پہلے خلیفہ ہارون الرشید کی بیگم ملکہ زبیدہ نے حاجیوں کی سہولت کے لیے تعمیر کروائی تھی اور صدیوں تک مکہ کے لوگوں اور حجاج نے اس کا پانی پیا۔ کہتے ہیں کہ یہ نہر وادی حُنین سے نکالی گئی تھی۔ اسمعیلی تاریخ کا دعویٰ ہے کہ زبیدہؔ اسمعیلی مسلک سے تعلق رکھتی تھیں لیکن زندگی بھر تقیہ میں رہیں۔

جمعہ کا دن تھا۔ ہم نے جمعہ مسجد حرام میں پڑھی۔اس کے بعد ایک مرتبہ اور کعبہ کا طواف کیا۔ اس مرتبہ غلاف کعبہ تک رسائی پا سکے۔ عصر ، مغرب اور عشاء کی نمازیں بھی کعبہ کےسایے میں پڑھنے کی سعادت پائی اور روحانی سکون حاصل کیا۔ مسجد الحرام میں ہر نماز کے بعد جنازہ کی نماز پڑھائی جاتی ہے یعنی ایک نماز سے دوسری نماز کے وقفے کے اندر کم ازکم ایک موت واقع ہوجاتی ہے جس کی نماز جنازہ مسجد حرام کا امام پڑھاتا ہے۔ ہمیں اس عظیم عبادت گاہ کے اندر نو دس مسلمانو کی نماز جنازہ میں شریک ہونے کا موقع ملا۔ میرا بھتیجا احسان اللہ خان اور بھانجا شاکراللہ خان جدہ سے ہمیں ملنے آگئے اور مسجد کے اندر ملاقات ہوئی۔ دوست عزیزوں کو ملنے کی سب سے مناسب اور آسان جگہہ بھی مسجدالحرام ہی ہے۔ باب علی کے سامنے بیٹھتے ہوئے حضورﷺ کے خانہ مبارک کے نظارے سے آنکھوں کو ٹھنڈا کرتے رہے جہاں اس وقت لائبریری بنی ہے۔ ہمیں بتایا گیا کہ ابو جہل کے گھر کی جگہ واش روم بنائے گئے ہیں جو مقام عبرت ہے۔

صبح سویرے مدینہ منورہ کے لیے روانہ ہوئے۔ ڈاکٹر سعید اپنی گاڑی میں ہمیں لے کر روانہ ہوئے تو جگہ کی کمی کے باعث ان کی اہلیہ اور بیٹا محمد ہمارے ہمسفر نہ ہو سکے۔ ان کی عدم شمولیت سے دل کو قلق سا محسوس ہوا۔ مکہ مکرمہ سے ساڑھے سات کلومیٹر کے فاصلے پر سڑک کے کنارے مسجد عائشہ رضی اللہ عنہا قائم ہے جو بہت خوبصورت مسجد ہے۔ یہ مسجد میقات بھی ہے جہاں بہت سارے زائرین احرام باندھنے کی تیاری میں تھے۔ ہم نے صبح کی نماز یہٰیں پڑھی۔ جب روانہ ہونے لگے تو کار سٹارٹ نہیں ہوئی۔ لاکھ جتن کے باجود انجن چلنے سے انکاری ہی رہا۔ ہم سب کو تشویش ہوئی۔ ڈاکٹر سعید بہت زیادہ پریشان ہوگئے۔ کئی پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور ملے۔ انہوں اپنی حد تک کوششیں کیں لیکن گاڑی کو نہ چلنا تھا، نہیں چلی۔ ڈاکٹر سعید نے مراد بھائی ( جس کا ذکر پہلی سطور میں ہو چکا ہے) سے فون پر رابطہ کیا اور اس کے چہرے کی پریشانی دور ہوگئی۔ کہنے لگا، “سر! مراد بھائی خود آرہا ہے”۔ دس پندرہ منٹ میں وہ اپنی پراڈو لے کر حاضر ہوا اور پوچھا کہ اپنی بیٹی اور محمد کہاں ہیں؟ ہم نے کہا کہ گاڑی میں جگہہ کی تنگی کے باعث انہیں چھوڑ آئے ہیں۔ کہنے لگا یہ گاڑی تو بڑی ہے کیا ہم ان کو لے کر نہ جائیں؟ ہم نے کہا بہت ہی اچھی بات ہوگی۔ ہم واپس جبل نور پہنچ گئے اور بیگم سعید اور محمد ابن سعید کو بھی ساتھ لے کر سوئے مدینہ روانہ ہوئے۔ اب ہم سب خوش تھے کیونکہ ہمیں محمد مل گیا اور بچیوں کو ان کی سہیلی ام محمد مل گئی تھیں۔۔ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کا فاصلہ کم و بیش 400 کلومیٹر ہے جو صاف ستھری اور کشادہ شاہراہ پرمشتمل ہے۔ کہیں کہیں چھوٹی موٹی آبادی نظر آئی۔ باقی تا حد نظر لق و دق ریگستان اور پہاڑیاں ہی نظر آتی رہیں۔ کہیں سرخ ریت کا میدان تھا تو کہیں سیاہ چٹانوں کی قطاریں تھیں۔ میرا تصورچودہ سو سال پہلے یہاں سے گزرنے والے کاروانوں کو دیکھ رہا تھا جو رسول خدا ﷺکی معیت میں یہاں سے گزرے تھے۔ مناسب فاصلوں پر ریسٹورانٹ، پٹرول پمپ اور مسجدیں بنی ہیں۔ آج نہ کوئی ہوٹل کھلا ملا اور نہ پٹرول پمپ ۔ سب بند تھے۔ بتایا گیا کہ سرکار نے بند کرکھا ہے کیونکہ یہ سرکاری معیار کے مطابق نہیں بنے تھے۔ وہ عمارتیں ہماری نظروں میں تو شاندار دکھائی دے رہی تھیں لیکن سعودی محکمہ بلدیات ان کو رد کرچکا تھا۔ معیار معیار کی بات ہے۔ ہم اپنے معیار سے دیکھ رہے تھے اور اہل عرب اپنے معیار کے پابند ہیں۔

ہم نے نماز ظہر سر راہ ایک مسجد میں پڑھی۔ روٹی راستے میں نہیں ملی اور جب مدینہ پہنچے تو ہوٹلوں میں کھانا نہیں بچا تھا۔ اس لیے ہمیں شام تک صبر کرنا پڑا۔ شہر النبی ﷺ پہنچے تو پہلے مسجد قبا دیکھی۔ یہ چھوٹی خوبصورت مسجد سڑکے کنارے واقع ہے۔ یہاں پر ورکوپ سے تعلق رکھنے والا جوان آئی ٹی انجنیئر مسٹر بشارت الٰہی آف وہرکوپ ہمارے منتظر تھے۔ مدینہ منورہ میں یہ برخوردار ہمارا گائیڈ بنے۔ مسجد قبا سے نکل کر ہم مسجد ذوالقبلتین پہنچے۔ یہ بہت عالیشان مسجد ہے۔ اس مسجد میں نماز کے دوران قبلہ بیت المقدس سے خانہ کعبہ تبدیلی کی وحی رسولاللہ ﷺ پر نازل ہوئی تھی اور نبی آخر زمانﷺ نے نماز کے دوران رخ تبدیل فرمائے تھے۔ عصر کی نماز یہاں ادا کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ ۔مسجد کے باہر زائرین کی ضرورت کی جملہ چیزوں کے اسٹالز لگے تھے۔ سامان بیچنے والوں میں خواتین بھی تھیں۔ وہ ایک علیٰحدہ جگے میں اپنا مال بیچ رہی تھیں۔ یہاں پر بھکاریوں کی کمی بھی نہیں تھی جو مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھے بھیک مانگ رہے تھے۔ انہیں دیکھ کر آل سعود کی حکمرانی کے نقائص نظر آئے۔ اس متمول بادشاہت کے اندر کم از کم ان مقدس شہروں میں بھکاری کا وجود نہیں ہونا چاہیے تھا۔ یہاں سے ہم احد پہنچ گئے اور شہدائے احد کے لیے فاتحہ خوانی کی۔ یہاں بھی اجناس و سامان کے سٹال لگے تھے۔ کھجوروں کے سٹال دیکھ کر منہ میں پانی بھر آیا۔ ڈاکٹر سعید نے ادھ کلو کھجور خرید کر ہماری بھوک مٹائی۔ عام بازار کے مقابلے میں سو فیصد مہنگے تھے۔ واپسی پر مساجد خندق کا دیدار کیا۔ یہاں پانج چھوٹی چھوٹی مسجدیں دیکھیں جو ان مقامات پر بنی تھیں جن پر جنگ خندق کے موقع پر رسول اللہ ﷺ اورسرکردہ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے خیمے استادہ تھے۔ جس ٹیلے کے اوپر نبی آخر زماں ﷺ نے فتح کے بعد نماز شکرانہ ادا کی تھی وہیں پر چھوٹی سی مسجد فتح قائم ہے۔اس کے علاوہ مسجد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ، مسجد عمرفاروق رضی اللہ عنہ ، مسجد علی کرم اللہ اور مسجد سلمان فارسی رضی اللہ عنہ دیکھی۔ افسوس اس بات پر ہوا کہ یہ ساری مسجدیں مقفل تھیں۔ دیواروں سے جھانک کر دیکھا تو ان کے اندر مٹی اور مردہ پتوں کے ڈھیر پڑے تھے۔ یہ دیکھ کر دل کو بہت دکھ ہوا۔ ان عظیم تاریخی مساجد کو بحال رہنے چاہیے تھیں اور زائرین کے لے کھلی رکھنی چاہیے تھیں۔ ان مساجد کے درمیانی جگہے پر ایک بڑی خوبصورت مسجد بنی ہے جو مسجد خندق کہلاتی ہے۔ یہاں سے جنت البقیع پہنچے تواس کا گیٹ بند ہوچکا تھا اس لیے باہر سے ہی فاتحہ پڑھ کر مغرب کی نماز کے لیے مسجد نبویﷺ میں داخل ہوئے۔ مغرب کے بعد اختر لال آف چارچمن آف واریجون مجھے لے کر رسول اللہﷺ کے حضور میں سلام پیش کرنے لے گیا۔ حضور کے روضہ مبارک کے سامنے چند لمحے گزارنے کا سلام پیش کرنے کا موقع ملا۔

ابوبکر صدیق اور عمر فاروق رضی اللہ عنہم کے مقبرے بھی رسول اللہ کے پہلو میں ہیں جہاں فاتحہ خوانی کی۔ اس کے بعد واپسی کا سفر اختیار کیا۔ مدینہ منورہ شہر سےباہر نکلنے تک بشارت صاحب کو ہماری رہنمائی کرنا تھی اس لیے وہ اپنی گاڑی آگے رکھی۔ مراد بھائی کسی گفتگو میں مصروف رہا۔ اس دوران بشارت کی گاڑی آنکھوں سے اوجھل ہوگئی اور مراد راستہ کھوگیا۔ اب ہمیں ایک دوسرے کو ڈھونڈتے ڈھونتے کم از کم ایک گنٹھہ نکل گیا۔ بشارت اور اختر نے ہمارے لیے کھانے کے پیک راستے کے ایک ہوٹل سے خرید کر زبردستی ہماری گاڑی میں رکھدیا تھا جسے رات دس بجے ایک بند پٹرول پمپ کے سامنے فرش پر بیٹھ کر کھا لیے جو پلاو اور سجی پر مشتمل تھا۔اتنا مزیدار کھانا تھا کہ آج تک اس کا ذائقہ منہ سے نہیں گیا۔ رات تین بجے ہم واپس مکہ معظمہ پہنچ کر سو گئے۔۔ اتوار کا سارا دن میں تو سعید کے گھر میں لیٹا رہا اور ساری تھکاوٹ دور کی جب کہ خواتین خریداری میں مشعول رہیں۔ اگلی رات رات کا کھانا کھاکر ہم جدہ روانہ ہوئے کیونکہ صبح ساڑھے پانج بجے ہماری فلائٹ تھی۔

14 Comments
  1. S. Nazkhan says

    @ Manzoor Shah
    Please don’t blame others using this forum. This is a forum of decent people of Chitral. So, you must take your “unscrupulous” word back. I hope the admin will repond to your comments soon.

  2. Manzoor Shah says

    HARAME PAK BE, ALLAH BE QURAN BE AIK…….. KUCH BARI BAAT THI,HOTAY JO MUSULMAN BE AIK………. beshak saudia ka sun kay muj jaisay log kanon may ungli daltay han woh isleay nahi k woh Allah ko nahi mantay ya Rasool ko nahi mantay balkay isleay k in munafiq arabion ko nahi mantay kyunkay inhon nay islam k andar firqawariat start ki jaisay shaam, iran ya iraq k surat may sab k samnay hay..

  3. Sayed Shamsu Nazar Fatimi says

    although I am not in favor of any Mubarak badi for Hujj and Umrah yet happy to see you here all right with your nears and dears. Got your feeling about this holy pilgrim. May Allah reward you the best.

  4. Sardar khan says

    Congratulations Lal

  5. Basharat says

    Great Teacher, Sher Wali khan Sab, accept mubarakbad for performing umrah and sharing you valuable information of the journey with us.

  6. Ijaz Ali shah says

    Shanzay Muneer on April 5, 2016 at 1:01 pm said:
    Very good comment good reply.

  7. chitrali says

    i am very glad to see sir aseer great worship that he went in holy places of saudi Arabia.indeed it is very great work ,without by the force of Allah and divine no one can perform it even he has the kingdom of a state.so it is not only pleasure for sir Aseer and his family but also a bright aspect of the some secrets about which our community was always doutful that ismalies do not perform haj and do not follow the whole islamic theory and ideology.but here the one thing is absolutely proved by respected teacher practically and by argument that ismailies also accept the ideology and true lesson of islam and universal accepted organized way of life and way of paradise.so why we should say it that if some one keeps in his heart deep love for Allah and nabi pak of course it is brightful day of my life that one day the whole muslim again converge on a point.so only one thing with aopologzing i mention here that sir say i performed this farz,according to my weak point of view if sir aseer has performed only umra it is not said to be a faraz then it is nafel.so i am sorry to mention it but sometime it needs to write that faraz is compulsory coponent and called arkan islam but umra is nafel not faraz,it it can be performed is precious worship may cause to the forgiveness from Allah and if it is not performed then has no accountability against it.Dear sir please accept my cordial congratulation regarding to your umra and convey my heartiest message to my bachi and sisters,may Allah grant you all the reward of your holy worship.in the last of my comment i would like to introduce myself to you that i am son in law of your great friend Sultan Wali late bumburate.

    1. Sher Wali Khan Aseer says

      Thanks dear for your comments and felicitation. I am still determined to perform Hajj, Insha Allah!

  8. Shehla Hakim says

    Sir, Ma woshkiar Mubarak baad. Ispa bache d dua kore.

    1. Khalil Jughoo says

      سر ! میں نے صرف اپنے علم مےکچھ اضافہ کرنے کی کوشش میں اپ سے کچھ پوچھا تھا – جواب کا بہتسکریہ – باقی جو سوال اپ نے مجھ سے پوچھا ہے اس کے جواب میں تو کچھ نہیں کہ سکتا – کسی مولانا سے ضرور پوچھ لوں گا . جہاں تک میری رائے ہے – تو میری نہایت کمزور مذھبی علم کے مطابق -اسے پانج بناے اسلام پر مکمل مضبوط یقین نہ رکھنے والا میری طرح نہ ادھر کا نہ اودھر کا مسلمان ہوگا –

  9. Sher Wali Khan Aseer says

    Your comment is awaiting moderation.
    اڈاکٹر خلیل صاحب! میری نظر میں بھی فرقوں کی کوئی آہمیت نہیں ہے۔ میں انسانیت کو آدم ذات کا بین الاقوامی مذہب سمجھتا ہوں۔ انسان بننے کے بعد جو لا الہ اللہ محمد رسول اللہ پڑھتا ہے وہ اسلام میں داخل ہے اور اس ناتے میرا بھائی یا بہن ہے۔ ویسے میرے مذہب میں ہر انسان میرا بھائی ہے۔ رہا آپ کا یہ کہنا کہ آپ کےاسمعیلی دوست حج یا عمرہ کے نام پر کانوں میں انگلی ڈالتے ہیں۔ اس کی وجہ وہی بتا سکتے ہیں۔ میرے علم کے مطابق اسمعلیوں کے پیر حضرت پیر شاہ ناصر خسروؒ نے کئی مرتبہ حج کیا تھا۔ چترال سے شاہ عبدلعزیز مرحوم اف کوراغ، تحصیلدار اف چنار مستوج ،چترال ٹوڈے کا ایڈیٹر زارعالم خان اور قیوم لا گرم چشمہ نے حج کی سعادت پائی ہیں اور یہ سب اسمعیلی ہیں۔ ان کے علاوہ (ر) ڈی ای او علی اکبر خان اور ڈاکٹر اسد نے مع فیلی عمرہ ادا کیا ہے۔ ان کے علاوہ بھی کئی ایک ہوں گے جن کے ناموں سے میں اور آپ خبردار نہیں ہوں گے۔ ہمارے سنی بھائیوں میں بھی ہزاروں، لاکھوں ایسے ہیں جو اسظاعت کے باوجود حج ادا نہیں کرتے۔ ان کے بارے آپ کیا کہیں گے؟
    Reply

  10. Shanzay Muneer says

    Khalil sb! You seem educated to me (either MBBs or PHD to some other doctorate degree) but I feel so sorry to see your comment. You are just creating a sunni-Ismaili conflicts through this esteemed paper. Sir Aseer has written his safarnama being a writer but you don’t have any right to drag the sect issues here. Saudia is sacred for all Muslims (if your mind allows you to consider sects other than Sunni as Muslims) and everyone has a right to go for visit/haj/umrah and you should be civil enough to not show your inner feeling even if you feel that you own the sacred places, being a sunni. Plus for your general knowledge Hazrat Ali was born inside Haram Shareef and he is supposed to be the first Imam of Ismailies.

  11. Dr. Khalil Jughoor says

    گو میرے نزدیک سنی اسماعیلی کوئی خاص معنی نہیں رکھتے . میں آج تک آپکو اسماعیلی ہی سمجھتا ہی رہا ہوں .. شاید اپ ھو بھی سکتے ہیں .. اگر ایسا ہے تو اپ کم از کم میرے علم مے انے والے پہلے اسماعیلی ہیں جس نے یہ کام کیا – ورنہ میرے سارے یار دوست سعودیہ کا نام سن کے کانوں میں انگلی ڈالتے ہیں – ایسا کیوں ہے یہ میرے علم میں نہیں اور ایسا کرنے پر بھی مجھے کوئی اعتراض بھی نہیں – ویسے مجھے تجسس ہمیشہ رہتی ہے – امید ہے اپ اس بارے میں کچھ ضرور لکھیں گے — چونکہ بحثیت استاذ اپ ہمارے لیے نہایت قابل احترام ہیں – اسلئے میری بات ناگوار لگے تو مجھے معاف کر لیجئے گا

  12. Tariq says

    عمرہ مبارک اللہ قبول کرے ـ بہت عمدہ تحریر آپکا مشاہدہ زبردست ہے ـ امید ہے آپ مذید لکھیں گے ـ طارق

Leave A Reply

Your email address will not be published.

error: Content is protected!!