مرحوم زین العابدین، ایک دُرویش انسان تھے

4

تان خشٹاران، تان زپان تان نیگورمیری ڈائری کے اوراق سے

تحریر: شمس الحق قمر

زین العابدین (مرحوم) ہم سے جدا ہوئے آج دو سال بیت گئے۔ وہ تمام رنگ، رعنائیاں، رونقیں، محبتیں، ہمدردیاں،خوش گفتاری، نرم مزاجی، برد باری، قناعت پسندی، اعتدال ،نکتہ سنجی، سخن فہمی، ملائمت اور انسانی شرافت کی وہ تمام اقدار ساتھ لیکر راہی عدم ہوئے جو میرے لئے اب کسی اور شخص میں قطعی طور پر موجود نہیں۔ کچھ نابغہ روزگار لوگ اپنی  زندگی اور  اس دار فانی سے کوچ کر جانے کے بعد بھی پیچھے آنے والی نسلوں کے دلوں میں زندہ تابندہ رہتے ہیں۔ لیکن زین العابدین کسی ایک خصوصیت کے اعتبار سے محترم نہیں تھے بلکہ آپ کی زندگی کے بے شمار پہلو اور بے کنار

زاوئے ایسے تھے جن کی بنا پر آپ اُن تمام کے دلوں میں راج کرتے ہیں جن سے آپ کی ایک پل کی ملاقات ہی کیوں نہ ہوئی ہو۔ مجھے پچھلے سال آپ کی زندگی کے حوالے سے آپ کے رفقأ سے ملنے اور اُن سے گفتگو کا موقعہ ملا ۔ جن حضرات سے میری ملاقاتیں ہوئیں اُن کے دلوں میں آپ کی شاندار یادوں کی کونپلیں ترو تازہ ہیں ۔ پہلو دار بات یہ ہے کہ آپ کی دوستی کسی ایک مکتبہ فکر ،کسی ایک پارٹی، کسی ایک خاندان اور کسی خاص عمر کے لوگوں کے ساتھ نہیں تھی بلکہ آپ ہر ایک ملنے والے کو پہلی ملاقات ہی میں اپنے مشفقانہ طرز معانقے سے اپنا گرویدہ بنا لیتے تھے ۔آپ کسی سے بھی ملتے تو تفصیلی ملاقات کیا کرتے آپ ہر ملنے والے کو اپنا سمجھتے تھے اور آپ کے تمام ملنے والے آپ کو اپنا سمجھ کےعزت و احترام سے پیش آتے۔ اباجی کے احباب کا دائرہ کار بہت وسیع تھا ۔(یاد رہے کہ ’’اباجی‘‘ زین العابدین مرحوم کی کنیت ہے) ابا جی کے جتنے بھی قریبی دوست اور رشتے دار ہیں اُن سب کی کوشش رہتی ہے کہ وہ اباجی کے تمام دوستوں سے اپنے تعلق کو برقرار رکھیں۔ لہذا پچھلے سال جولائی کے دوران شمس الدین بھائی کے ایما پر اُن ہی کی معیت میں ہم نے مرحوم ابا جی کے دوستوں سے ملنے کے سلسلے کا آغاز کیا (جو کہ اب بھی جاری ہے) ۔

ملاقاتوں کے اس سلسلے میں ( مرحوم اباجی) کے ایک ہم عصر سیاسی مد مقابل محترم خور شید صاحب سے ہم نے زین العابدین (مرحوم ) ، ’’ ابا جی ‘‘ ،کی سیاسی زندگی کے حوالے سے استفسار کیا تو انہوں نے کہا کہ میں سیاست میں زین العابدین کا سیاسی مخالف رہا ہوں ۔وہ ایک مکمل  آدمی تھے میرے لئے اُن کے نام کے ساتھ مخالف کا لفط اُن کی پرکشش شخصیت کے ساتھ توہین معلوم ہوتا ہے ۔ یہ نکتہ سب پر عیاں ہے کہ سیاست میں لوگ متازعہ ہوتے ہیں ۔ لوگ اپنی سیاست چمکانے کے لئے ہر جائزو ناجائز کا سہارا لیتے ہیں اقتدار کی ہوس میں تمام رشتے بھول جاتے ہیں لیکن مرحوم زین العابدین ایک ایسے سیاست دان تھے جس کی مثال کے لئے ہمیں خلفائے راشدین کے ادوار کی شاندار تاریخ کو پیش کرنے کی ضرورت ہوگی ۔آپ میری مخالف سیاسی پارٹی سے تعلق ضرور رکھتے تھے تاہم میرے ساتھ دوستی کے رشتے میں سیاسی اختلافات سے ہمیشہ بالا تر رہے ۔ وہ میرے ہر دکھ درد میں میرے خونی رشتوں سے ایک بالشت آگے نکل کر شریک ہوتے لیکن کارزار سیاست میں جہاں اختلاف رائے کی گنجائش ہوتی وہاں مثبت اختلاف رائے بھی رکھتے البتہ وہ عظیم خصوصیت جو اُنہیں باقی تمام سیاست دانوں سے ممتاز کرتی ہے، اُ ن کی انسان دوستی تھی ۔ زین العابدین جیسے دانشمند ، دور اندیش ، پرخلوص اور انسان دوست انسان سیاست کے میدان میں صدیوں میں ایک پیدا ہوتے ہیں۔ وہ ہمیشہ اُس سیاست کو مقدم اور درست سمجھتے تھے جس میں اجتماعی مفاد کا عنصر موجود ہو ۔ ہم جب ڈسٹرکٹ کونسل کے ممبر تھے تو ایک دوسرے کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا ۔ زین العابدین ( مغفور) مختلف امور کے حوالے سے میرے پاس تشریف لایا کرتے تھے اور میں عوامی کاموں کے سلسلے میں آپ کے یہاں جایا کرتا تھا ۔میں نے اُنہیں کبھی بھی ذاتی یا انفرادی مفاد کے حوالے سے بات چیت یا بحث و تمحیص کرتے ہوئے نہیں سنا ۔

جب بھی بات کرتے تو اجتماعی مفاد پر بات کرتے ۔اُن کا مذہب ، اُن کا خاندان ، اُن کی سوچ اور اُن کا سب کچھ خدمت خلق تھا ۔ ہر ایک کے کام کو اپنا کام سمجھ کے کیا کرتے ۔ہم نے دیکھا ہے کہ اکثر سیاست دان کسی اجتماعی یا انفرادی کام سے وقتی طور پر دامن تہی  یا گلو خلاصی کے لئے جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں ، یہ سیاست دانوں کا وقت بے وقت کے دردِ سری سے بچنے کا عام طریقہ ہوتاہے ، کام کو ٹالا جاتا ہے، وقت گزر جاتا ہے اور یوں چھٹکارہ حاصل ہوتا ہے لیکن مرحوم کی ایک بہترین خوبی یہ تھی کہ آپ نے کبھی بھی دروغ گوئی   کا سہارا نہیں لیا اور نہ ہی کسی کے کام میں تاخیر کی ۔کسی فرد یا جماعت کی کوئی فرمائش یا کوئی بھی کام اگر آپ کے دائرہ کار میں ہوتا تو اُس کی تکمیل کی ہر ممکن کوشش کرتے اور وہ امور جن کی انجام دہی میں رکاوٹوں کا احتمال ہوتا یا ان کی تکمیل میں فتور نظر آتا تو انتہائی صاف گوئی سے سائل سے معذرت کیا کرتے تھے۔ مرحوم ایم پی اے زین العابدین کے حوالے سے یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ آپ ایک طویل مدت تک بحر سیاست کے آب جو رہے ضلعی اور صوبائی سطح پر متعدد بار اقتدار میں رہے لیکن آپ کے تمام جاننے والے اس بات سے متفق ہیں کہ اقتدار میں رہنے اور سپید و سیاہ کے مالک ہونے کے باوجود بھی آپ کے پاس کوئی بنک بیلنس نہیں تھا نہ کوئی ایک انچ قطعہ زمین انہوں نے سرکار کے پیسے سے خریدی تھی حالانکہ اقتدار کی اُن نشستوں میں پوچھنے والا کوئی نہیں ہوتا ۔ دیکھنے اور پوچھنے کے حوالے سے وہ اللہ تعالی کی بادشاہت پر یقین محکم رکھتے تھے یہی وجہ تھی کہ آپ نے خدمت خلق خدا کو اپنا نصب العین بنایا اور زندگی بھر اسی نظم و ضبط سے پیوستہ رہے۔آپ کی ان خوصوصیات سے باخبر لوگ بہت ہی احترام سے آپ کا نام لیتے ہیں آپ کی مثالیں دیتے ہیں ۔ ہر خاص و عام کو آپ سے مل کر دلی آسودگی ہوتی  تھی اس آسودگی کا اظہار آپ کے احباب کل بھی کرتے تھے اور آج بھی کرتے ہیں ۔آپ کی شخصیت میں بلا کی کشش تھی ۔آپ کہیں جانے سے پہلے اپنے دوستوں کو اطلاع کیا کرتے تھے تو آپ کی آمد سے پہلے ہی دوستوں میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ۔ آپ کے دوست آپ کے انتظار میں چشم براہ رہتے اور آپ سے مل کر خوشی، سکون اور فخر محسوس کرتے ۔آپ کے دوستوں کے لئے آپ کی دوستی کے سامنے سب کچھ ہیچ تھا۔

بونی کی مشہور سماجی و سیاسی شخصیت، شاعر اور کھوار زبان کی تاریخ میں پہلی بار شایع ہونے والے ناول انگرسستانو کے مصنف ظفر اللہ پرواز ؔ آپ کے قریبی مگر نوجواں دوستوں میں سے ایک ہیں۔ ظفراللہ پرواز کئی ایک علاقائی دوروں میں آپ کے ہم رکاب رہے ہیں جن میں گلگت اور بلتسان خپلو کے سفر یادگار ہیں ۔ذاتی طور پر مجھے یہ دیکھ کر بے انتہا خوشگوارحیرت ہوتی ہے کہ مرحوم کے پاس ایسا کونسا جادو تھا کہ جس کے ذریعے آپ لوگوں کے دلوں میں نہ صرف جا گزیں ہوئے اور اپنی رحلت کے بعد بھی اپنے احباب کے دلوں پر راج کر رہے ہیں  اور لوگوں کی آپ سے محبت کی حد یہ کہ آپ کے انتقال کے بعد آپ کے جتنے بھی دوستوں سے ہم ملے وہ سب آپ سے رفاقت کے واقعات بیان کرتے کرتے آبدیدہ ہو جاتے تھے ۔ یہی صورت حال ظفر اللہ پراز کی بھی تھی ۔ ظفراللہ پرواز کو آپ کے حوالے سے کئی ایک واقعات یاد ہیں ۔ وہ اس بات پر حیرت کا اظہار کرتے ہیں کہ مرحوم کی بے شمار خصوصیات میں سے ایک امتیازی خصوصیت یہ تھی کہ اُنہیں  دوست بنانے اور دوستی کے رشتے کو ہمیشہ کے لئے برقرار رکھنے میں خاص ملکہ حاصل تھا ۔ اُن کے دوستوں میں، دنیاوی لحاظ سے ، بڑے لوگ بھی ہوتے تھے اور عام لوگ بھی ہوتے تھے لیکن اچنبھے کی بات یہ تھی کہ جنہیں ہم عام کہتے ہیں وہ اُن کی نظر میں خاص تھے اوردوستی کے اس خصوصی رشتے کی پاسداری میں آپ اُن کے ہردکھ درد میں آخری دم تک برابر کے شریک رہے ۔

ظفر اللہ پرواز ؔکے مطابق جب مرحوم صوبائی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے تو آپ کے حق میں ووٹ دینے والوں کی تعداد چترال کی تاریخ میں سب سے زیادہ تھی ۔ اس بھاری تعداد کی وجہ اُس کی سیاسی پارٹی، اُس کا علاقہ اور نہ اُس کی کوئی اثرو رسوخ تھی بلکہ اس کی اصل وجہ بغیر کسی ترس و طمع اور بنا کسی حرص و ہوس کے لوگوں میں بانٹی ہوئی بے لوث محبت تھی جو کہ لوگ اپنے حق رائے دہی کے ذریعے اظہار محبت کے طور پراُسے واپس لوٹا رہے تھے۔  انہی انتخابات میں یہ فاروق لغاری  کے بعد  پاکستان کےدوسرےاور چترال  کے پہلا امید وار تھے  جنہیں عوام  کی بھاری تعداد نے  منتخب کیا تھا ۔ یہ  چترال کی تاریخ  میں واحد  انتخابات تھے جن میں لوگوں نے دانشمندی  اور دور اندیشی سے کام لیتے ہوئےمرحوم زین لعابدین کو اپنے لئے سیاسی راہنمامنتخب کیا ۔ بنیادی طور پر لوگ آپ  کو  آپ کی بے لوث  محبتوں کا صلہ دے رہے  تھے کیوں کہ آپ کی سحر انگیز اور دلنشین شخصیت ہر قسم کی تعصبات سے بالا تر تھی ۔آخری دم تک خدمت خلق کو شعار بنا ئے رکھا زندگی میں ستائش کی تمنا کی اور نہ صلے کی پروا یہی وجہ تھی کہ آپ کا نام زبان زدِ خاص و عام تھا اور لوگ آپ کو دل سے چاہتے تھے۔ آپ اپنی رحلت سے ایک سال قبل چترال میں ایک لیڈر شب فورم کی تشکیل پر کام کر رہے تھے اُس فورم کا مرکز چترالی یعنی ’’کھو ؤ‘‘کلچر تھاآپ اپنی تہذیب و تمدن دنیا کو دکھا کر دوسری تمام اقوام کو یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ ہم تمام تعصبات سے پاک ایک امن پسند قبیلے کی شکل میں ہندو کش کے دامن میں ایک چھوٹی سی پٹی کے باسی ہیں ۔ ہماری ثقافت دوسروں سے ممتاز ہے۔ آپ کے ایک اور قریبی دوست فیض الرحمان نے اپنی یاد داشت سے ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ چترال لیڈر شپ فورم آپ کا خواب تھا جو کہ کسی بھی وقت شرمندہ تعبیر ہوتا رہے گا ۔

اپنی زندگی میں ایک گفتگو کے دوران اسی فورم پر بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ اس فورم کی اس لئے بھی اشد ضرورت ہے کہ ہم اپنے لوگوں کی صلاحیتوں کا دل سے اعتراف کریں ۔ ترقی کا راز اسی میں ہے کہ ہم ایک دوسرے کی قابلیت و مہارتوں کی قدر کریں اور اُن صلاحیتوں سے کام لیں اور اپنی خدا داد صلاحیتوں سے دوسروں کی مدد کریں۔ بونی کی ایک اور مشہور شخصیت ایڈوکیٹ فدا علی صاحب پیپلز پارٹی میں آپ کے بہت ہی قریبی رفقأمیں شمارہوتاہے۔ اباجی ( مرحوم) کی شخصیت کےحوالےسےفداصاحبکیہررائےسندکیحیثیترکھتیہے۔فداصاحبکہتےہیںکہمرحومزینالعابدینکیشخصیت پارٹی میں سب پر بھاری تھی اور وہ ہاوی آدمی تھے۔ ہم اُن کے ساتھ میٹنگوں میں جایا کرتے تھے اور آپ کی گفتگو سنا کرتے تھے ۔ آپ کی گفتگو میں ایک جادو تھا کیوں کہ پارٹی کے اندر آپ جب بھی کسی نکتے پر اظہار خیال فرماتے تو خوب سوچ بچار اور ناپ تول کے بعد کوئی جملہ کہہ دیتے ۔ مد مقابل کوئی بھی ہو آپ کی دور اندیشی ، سخن فہمی اور خوش گفتاری کے سامنے ہتھیار ڈال دیتا ۔ پارٹی میں بڑے بڑوں سے سخن آزمائی کرتے دیکھا ۔ آپ جب سیاسی نشست پر براجمان ہوتے تو سوال پیدا نہیں ہوتا کہ آپ کی کوئی بات رد ہو کیوں کہ کسی بھی میٹنگ کو آپ غیر معمولی نہیں سمجھتے خواہ بہت مختصر نشست ہی کیوں نہ ہو آپ مکمل تیاری کے ساتھ جاتے اور میٹنگ کی روداد خود اپنے قلم سے اپنی ڈائری میں ثبت کرتے ۔فدا صاحب کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ کسی مختصر اور عام میٹنگ کے لئے مرحوم زین العابدین صاحب نے حسب معمول خصوصی تیاری شروع کی تو میں نے از راہ تفنن کہا کہ جناب آج کی میٹنگ میں علاقے کے ایک دو عام لوگ ہی تو ہوں گے اور آپ کی یہ عرق ریزی اور جان فشانی؟ کہنے لگے کہ انسان سب برابر ہوتے ہیں کوئی عام اور کوئی خاص نہیں ہوتا ۔یہ جو عام اور خاص کا تصور ہے یہ کمزور انسانوں کی ناقص تخلیق ہے جوکہ آئین فطرت کے خلاف ہے ۔ چترال کے ایک اور نگینہ محترم مولا نگاہ نگاہ ؔ صاحب نے فارسی کے ایک اسم مصدرکے اندر اباجی مرحوم کی شخصیت کو خوبصورت انداز سے سمو دیا گویا سمندر کو کوذے میں بند کیا اور پھر قطرے سے قلزم بہا دیا ۔ فرماتے ہیں کہ فارسی زبان میں ’’ وشیدن ‘‘ کے دو معنی ہیں ایک معنی ’’مانگنے ‘‘کے ہیں اور دوسرا معنی ’’بکھیر نے ‘‘کے ہیں یوں’’ دَر‘‘ کے معنی’’ دروازے ‘‘کے ہیں اور’’ دُر ‘‘ فارسی میں’’ لعل و جواہرات‘‘ کو کہتے ہیں ۔ یوں’’ دَرویش ‘‘سائل کے مفہوم میں جانا جاتا ہے جبکہ ’’دُرویش‘‘ لعل و جواہرات بکھیرنے کے معنی میں مستعمل ہے لہذا میری نظر میں زین العابدین ایک دُرویش انسان تھے آپ کی زبان سے لعل و جواہرات کی بوچھاڑ ہوا کرتی تھی   ۔ اللہ آپ کو اُس جہان میں بھی ہنستا مسکراتا اور لعل و جواہرات بکھیرتا رکھے۔ آمین

4 Comments
  1. Shafqat says

    khush-fehmiyon ke silsilay bhi kitne daraaz hain, har eent samajh bethi hai ke deewar mujh se hai.

  2. Dur Wali says

    Nice and comprehensive write up about a lovely personality.But in his personality the strong sense of service of humanity, honesty, harmony, tolerance, patience, sympathy, kindness, respect and optimistic approach were the contributing factors to make his personality different from others. He had a great potential and high qualities of leadership such as positive attitude, visionary approach, commitment, clear communication, wisely selection of words in discussion etc that were dominant in his personality. Luckily he succeeded to transfer these qualities to his worthy sons. May Allah rest his noble soul in peace.

  3. Shah Karez says

    Beautiful portrayal of a person whose character is a beacon of light for all of his descendants. It might be difficult to emulate him but I am sure his progeny will continue the legacy he left behind. No wonder, he has already passed the legacy on to his worthy sons to continue. May his soul rest in peace.

  4. Saifuddin Saif says

    Dear Shams sb,
    Thank you for sharing your thoughts on Abbaji. Although it is not humanly possible to capture Abbaji’s personality in one write up; you have done justice to the subject. He lived his life like a candle in the wind. May his soul rest in eternal peace so do we pray and may Allah grant us each a little from Abbaji’s huge legacy to carry forward. Ameen!
    Saif.
    Morder.

Leave A Reply

Your email address will not be published.

error: Content is protected!!