Chitral Today
Latest Updates and Breaking News. Editor: Zar Alam Khan.

درد دل کے واسطے

دھڑکنوں کی زبانjaved
محمد جاوید حیات ؔ

میری بچی دوپٹے کے نیچے کچھ چھپا کے میرے سامنے سے سہمی سہمی گذر رہی تھی وہ مجھے دیکھتی جاتی تھی ۔ مجھے شک پڑ گیا ۔۔۔آواز دی ۔۔۔پاس بلایا۔۔۔۔وجہ پوچھا تو اس کی آنکھوں میں حسرت نمی بن کر تیرنے لگی ۔۔۔ کہا ! ابو انٹی آئی ہے ا س کے گھر میں کھانے کی چیز ختم ہو چکی ہیں ماں نے کہاکہ میں اس کے لئے ایک کلو چاؤل لاؤں ۔ابو میں نے چھپکے سے چاؤل کے اوپر ایک تھیلی گھی بھی رکھی ہے ماں کو پتہ چلے تو عضب ڈھائے گی ہمارے گھر میں بھی گھی ختم ہو رہا ہے ۔ ابو۔۔۔۔وہ میری آنکھوں میں ڈوبنے لگی میں نے کہا ۔۔۔جلد ی کر و ۔۔۔واپس آکے میرے سینے پہ ایک لمحے کے لئے سر رکھو تاکہ میں اپنے رب کا شکر ادا کر وں کہ میری لخت جگر کو اللہ نے’’و درد دل ‘‘سے نوازا ہے۔۔۔ابھی میرے گاؤں کو سیلاب سے تباہ ہوئے ایک دن گذراتھا ۔ سخت بارش تھی کہ اس سمے ایس ایچ او تھانہ شاگرام اقبال صاحب اپنے جوانوں کے ساتھ پہنچ گیا۔۔۔ کہا کہ مصیبت کی اس گھڑی میں چترال پولیس حاضر ہے ۔ میں جوانوں کی آنکھوں میں موجود ’’درد ‘‘کی موجوں میں ڈوب گیا ۔ میں چترال پولیس کو داد دئے بغیر نہ رہ سکا جوانوں نے کہا کہ ہماری نیندیں اس مصیبت کی نذر ہو گئی ہیں ۔۔مجھے بلایا گیا ۔۔۔انتظامیہ کے لوگ آ موجو د تھے ۔ایس ڈے اے بونی اپنے دوسرے ساتھیوں سمیت موجود تھا۔ ان کے ساتھ محکمہ آپاشی ، زراعت ،محکمہ آب رسانی کے زمہ دار آفیسر موجود تھے۔
میں نے چائے کا ارڈر دیا توایس ڈے اے الیاس احمد نے کہا ۔۔۔سر ! ہم دکھ بانٹنے آئے ہیں چا ئے پینے نہیں ۔۔۔جب میں ان کو ٹوٹے پل کے ساتھ دریا پار کر ارہا تھا ۔ توایس ڈے اے صاحب نے کہا سر ! مجھے تیر نا آتا ہے ۔ لیکن ساتھیوں کا پتہ نہیں ۔ ساتھیوں نے کہا مصیبت کی اس گھڑی میں ہمیں اپنی جانوں کی پرواہ نہیں ۔۔۔ موژ گول موڑکھو کے مقام پر لفٹ (ژانگو) کے زریعے تار کو دو نوجوان نہایت شوق ، جذبہ اور پھرتی سے کھینچ رہے تھے ۔ جیکٹ پہنے تھے ۔ ان پر ’’الخدمت ‘‘لکھاہوا ہے۔میں نے کہا کہ جوانو تعارف کراؤ۔کہا کہ’’ رضا کار ‘‘ ہیں صبح سے شام تک خدمت میں لگے ہیں ۔۔۔ کوراغ کے مقام پر فلک بوس پہاڑ چڑھنے کے لئے تیار کھڑا تھا کہ پاک فوج کا ایک جوان دریا کی موجوں کو ٹکٹکی باندھے کھڑا تھا ۔ میں نے کہا بھائی ! اس نے میری طرف دیکھا ۔۔۔کہا دوست ! میں دریا کی موجوں کو للکار رہا ہوں ۔ کہ تم مجھے شکست نہیں دے سکتے ۔۔۔میں نے کہا دوست مجھے تم پر فخر ہے۔مجھے پاک فوج پر فخر ہے ۔ میرا سلام اپنے کمانڈانٹ تک پہنچاؤ ۔ اس نے ہنس کر کہا میں ہر گمنام کا نام ان تک نہیں پہنچا سکتا ۔ البتہ میرے کمانڈانٹ کے خون کی گر می میر ی رگوں میں اتر آئی ہے ۔ اگر غور کر و تو ہر سپاہی کی رگوں میں کمانڈانٹ کا خون دوڑتا ہوا نظر آئے گا ۔ جو کمانڈر قوم کی خدمت کا جذبہ لے کے اٹھتا ہے تو ایسا ہی ہوتا ہے ۔ میں نے کہا۔۔۔جوان یہ جو پہاڑ کی بلندی ہے۔۔۔
اس نے کہا میرے حوصلے سے بلند تو نہیں ۔ پھر اس نے کہا مسافر اپنی راہ لو میرے پاس وقت نہیں ۔۔۔مولانا خلیق الزمان کو گاڑی سے اترتے ہوئے سلام کیا کہا وعلیکم اسلام میرے پاس ہاتھ ملانے کا وقت بھائی ۔۔۔۔اس کا چہرہ خدمت کے جذبے سے سرشار تھا۔ میں نے این جی او کے کارکنوں ، ایف آئی ایف کے جوانوں ، الخدمت کے شاہنوں ، صدیقی ٹرسٹ کے رضا کاروں کو دوڑتے دیکھا ۔ میں نے قلم کاروں اور میڈیا والوں کو دوڑتے دیکھا ۔ میں نے دیکھا کہ گاؤں کے لوگ ہے ، بزرگ بچے ، خواتین تک کیچڑ میں کھڑے لوگوں کی مدد میں لگے ہوئے ہیں ۔ میں نے محسوس کیا کہ زندگی میں جب ہلچل پیدا ہوتی ہے تو یہ عضب کی پیاری ہوتی ہے ۔ اس کو ڈرامہ کہنے والے بھول جائیں کہ یہ ڈرامہ نہیں جدوجہد ہے۔ اللہ رحیم نے فرما یا ۔تمہارا رب ہمہ وقت کام میں لگا ہوا ہے۔ لازم ہے کہ اس کے کامیاب بندؤں ایک نشانی جان فشانی ہے ۔۔۔
یہ عجیب قوم جب مصیبت کا سامنا کرتی ہے تو سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاتی ہے ۔ اس کے خون میں جنون اُتر آتا ہے ۔ وہ اختلافات بھلادیتی ہے۔ آسمان نے بار بار اس کا امتحان لیا۔ اس بار کی بارشوں نے پھر اس کا امتحان لیا۔ تو دیکھا کہ کراچی میں دھڑ کتا دل چترال کے درد کو محسوس کر رہاہے ۔ حکومت کی مشنری انتظامیہ کی توجہ ، فوج کی موج بلا خیز سب اسی پسماندہ ضلع کی طرف دوڑ ے ۔ اور ایسے دوڑے کہ یہاں کے باسیوں میں ہر ایک کو پاکستان پر فخر ہونے لگا ۔ اور انسانیت کے معیار کا وہ مظاہرہ ہوا کہ فلک عش عش کرنے لگا ۔ جس حکمران پر دریا ئے فرات کے کنارے بھوکے کتے کا حق واجب تھا۔ اسی کا مظاہر ہ ہوا اور مجھ کو ناچیز کو یقین ہو گیا ۔ کہ انسان کو خالق نے ’’درد دل ‘‘ کے واسطے بھی پیدا کیا عبادت کے ساتھ ساتھ ۔۔۔بلکہ یہ عین عبادت ہے۔

You might also like

Leave a Reply

error: Content is protected!!