سود،جمہوریت اور پاکستان

Dr Inayatullah Faizi
دادبیداد
ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی ؔ
خبر آگئی ہے کہ حکومت نے گذشتہ تین سالوں میں 35کھرب 52 ارب روپے حکومتی سطح پر لئے گئے قرضوں پر سود کی مد میں ادا کئے 32 کھرب 65 ارب روپے ملکی قرضوں پر سود ادا کیا گیا جبکہ 2 کھرب 87 ارب روپے غیر ملکی قرضوں پر سود ادا کیا گیا اصل زر اپنی جگہ مو جود ہے اگر سود کی اوسط شرح 10 فیصد ہو تو اصل قرضوں کی مالیت پاکستانی کرنسی میں 100 کھرب کے قریب بنتی ہے 1999 ء میں جنرل مشرف حکومت میں آئے تو پاکستان پر 39 ارب ڈالر کا قرضہ تھا پاکستانی کرنسی میں یہ رقم 23 کھرب 40 ار ب روپے بنتی تھی
جنرل مشرف نے 9 سال کرنسی کو ڈالر کے مقابلے 60 روپے سے گرنے نہیں دیا قرضوں پر سود کی ادائیگی کے بعد 5 ارب ڈالر کا اصل زر بھی ادا کیا اور جمہوریت آنے کے سال 2008 میں پاکستان پر قرضوں کا بوجھ 34 ارب ڈالر رہ گیا تھا 2013 ء میں دوسری جمہوریت آئی تو معلوم ہوا کہ قرضوں کی مالیت میں 62 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے اب دوسری جمہوریت کو 3 سال سے اوپر ہو گئے قرضوں کا حجم بڑھ کر 85 ارب ڈالر کی حدکو چھونے لگا ہے ڈالر کی 107 روپے والے نرخ کے ساتھ پاکستانی کرنسی میں اس رقم کی مالیت 91 کھرب روپے ہوگی 2008 سے 2016 تک جمہوری حکومتوں نے صرف سود ادا کرکے مزید قرضہ لیا ہے ایک بڑی اکیڈمی میں لیکچر تھا فاضل مقرر نے دلائل سے ثابت کیا کہ پاکستان ایٹمی طاقت ہے ہماری مسلح افواج کو دنیا کی بہتر ین افواج میں شمار کیا جاتا ہے ہم نے کر کٹ کا ورلڈ کپ جیتا ہے ،شرمین عبید ،ارفع کریم اور ملالہ یو سفزی نے پاکستان میں آنکھ کھولی ڈاکٹر عبدالسلام نے پاکستان میں آنکھ کھولی فیلڈ مارشل ایو ب خان ،جنرل ضیا ء الحق ،جنر ل اختر عبدا لرحمن خان ،جنر ل مشرف اور جنرل راحیل شریف جیسے جری اور بہادر جر نیل پاکستان نے پیدا کئے ہم زندہ قوم ہیں فاضل مقرر نے اپنی تقریر ختم کی تو ہال کے ایک کونے سے پولیو زدہ معذور لڑکی بیساکھیوں کے سہارے اُٹھی مائیک لے لی اور اس نے شُسہ انگریزی میں مختصر سوال پوچھا سر!ہماری وزارت داخلہ ،خارجہ ،خزانہ اور وزارت توانائی کیوں ناکامیوں سے دو چار ہیں ؟فاضل مقرر کے پاس اس مختصر مگر جامع سوال کا کوئی جو اب نہ تھا ہماری وزارت خارجہ قوموں کی بر ادری میں پاکستان کو با عزت مقام دینے میں ناکام ہو چکی ہے ہماری وزارت داخلہ بھارتی ایجنسی راء کے ایجنٹوں کو پکڑنے میں ناکامی سے دو چار ہوئی ہے ہماری وزارت خزانہ قوم کو سماجی شعبے کی ترقی میں کوئی حصہ نہیں دے سکی
ہمارے وزارت توانائی قوم کو 1972 کے بعد کوئی ڈیم کو ئی بجلی گھر نہ دے سکی پڑوسی ملک بھارت نے گذشتہ 46 سالوں کے اندر 60 بڑے ڈیم تعمیر کئے ان میں سے 21ڈیم پاکستان کے دریاؤں پر تعمیر ہوئے 2030 تک پڑوسی ملک ہمارے دریاؤں پر بھارت اور افغانستان میں 28 مزید ڈیم بنائے گا تو پاکستان بنجر ہو جائے گا منگلا اور ورسک کے ڈیم بھی خشک ہو جائینگے سکھر اور گدو بیراج ناکارہ ہو جائینگے پولیو زدہ لڑکی بیساکھیوں کے سہارے مختلف لائبریریوں سے استفادہ کر کے پاکستان کی چار اہم وزارتوں کی مسلسل ناکامیوں سے باخبر ہے ہمارے سیاستدان اور ہمارے بیوروکریٹ ان ناکامیوں کا شعور اور ادارک نہیں رکھتے یہ بھی افسوس ناک امر ہے کہ ہمارے ہاں فوجی حکومت ہر دور میں جمہوری حکومت سے بہتر رہی ہے جنوری کے مہینے میں اگلے سال کے مالی بجٹ پر کام شروع ہو رہا ہے اگلے مالیاتی سال کے بجٹ کا 56 فیصد قرضوں پر سود کی ادائیگی کے لئے وقف ہوگا 38 فیصد وزارت دفاع کو دیا جائے گا بقیہ 6 فیصد (چھ فیصد سماجی ترقی کے لئے مہیا کیا جائے گا ایک فیصد تعلیم کے لئے اور ایک فیصد صحت کے لئے مہیا ہوگا یہ ہماری اوقات ہے اور اس پر ہمیں فخر ہے ہمارے علما ئے کرام ، سیاسی اکابرین اور فاضل مقررین اپنی تقریر وں میں بڑے فخر کے ساتھ اس بات کا ذکر کرتے ہیں کہ پاکستان اسلام کے نام پر قائم ہوا قائد اعظم بنیاد پرست اور انتہا پسند مسلما ن تھے مگر ہمارے اکابرین اس پر ایک لفظ بھی نہیں بولتے کہ علما ئے دین کی موجودگی میں قومی اسمبلی سے 35 کھرب 52 ارب روپے سود کی ادا ئیگی کا بل کیسے منظور ہوا ؟ ہمارے حکومت قومی بجٹ کا بڑا حصہ قرضوں پر سو د کی ادا ئیگی کے لئے کیوں وقف کرتی ہے ؟
اس سود کا جمہوریت ، پاکستان اور اسلام کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ اعدا دو شمار کے ہیر پھیر کو ایک طرف رکھ کر دیکھا جائے تو حیرت ہوتی ہے کہ پاکستان میں سرکاری سطح پر تعلیم ، علاج ، سماجی بہبود اور فلاحی ریاست کی کوئی سہولت دستیاب نہیں زکوۃ کسی غریب کو نہیں ملتی ، بیت المال کی ایک پائی کسی غریب کے لئے دستیاب نہیں پھر 91 کھرب روپے یا 85 ارب ڈالر کا قرضہ کون لیتا ہے ؟ یہ پیسہ کدھر جاتا ہے ؟ اگر جنرل مشرف 2016 ء تک حکومت میں ہوتے تو پاکستان قرضوں کے حجم کو 34 ارب ڈالر سے کم کر کے 20 ارب ڈالر تک لانے میں کامیاب ہوجاتا مگر جمہوریت اور اسلام کے نام پر قوم کو اندھیروں میں دھکیلا گیا نئی نسل کے سوالات کا ہمارے پاس کوئی جواب نہیں
ڈاکٹر فیضی نے ہم جیسے “آمریت پسندوں” کی بہترین ترجمانی کی ہے اور دلائل کیساتھ کی ہے۔ جمہہوریت کے عالمبردار ہمیں جواب دیں۔