اسلام اور انسانی خلقت کا مقصد
(تحریر: محمد آمین (گرم چشمہ

مولانا رومیؒ نے انسان کے اندر جنم لینے والے سوالات کو بہت خوب صورت انداز میں بیاں کیا ہے.دن کو میری سوچ یہی ہے اور راتوں کو میری گفتگو کا محور یہی ہے کہ میں اپنے دل کے آحوال سے کیوں غافل ہوں؟میں حیرت کے سمندر میں غوط ور ہوں کہ اس نے مجھے کیوں بنایا ہے اور میری تخلیق سے اس کی مراد کیا تھی؟میں کہاں سے آیا ھوں اور میرے آنے کا مقصد کیا تھا؟اور اخر کر میں کہاں جاؤں گا اور میرا حقیقی وطن کیا ہے؟میں تو باغ ملکوت کا پرندہ ہوں میں تو اس خاک سے تو نیہں ہوں ،کچھ دنوں کے لیے میرے بدن کو میرا پنجرہ قرار دیا گیا ہے وہ کیسا دن ہوگا جس دن میں اپنے حقیقی دوست کی طرف پرواز کر جاؤں گا جس دن اس کی گلی میں پہنچنے کی آرزو لیے اپنے بال و پر ازماؤں گا.
قرآن پاک کی نظر میں کائنات عبث اور بے مقصد تخلیق نہیں کی گیی ہے بلکہ اس کے تمام اجزاء و عناصر مشخص مقصد و ہدف کے لیے خلق ہویے ہیں ،قرآن مجید کی بہت سی آیات میں کا ئنات اور انسان کی خلقت کے مقصد کی طرف اشارہ کیا گیا ہے مثلا ارشاد باری تعالی ہے. بے شک زمیں و آسمان کی خلقت اور روز و شب کی گردیش میں صاحباں عقل و دانش کے لیے آیتن اور نشانیاں ہیں جو لوگ اپنے رب کو اٹھتے،بٹھتے اور پہلو کے بل لیٹے ہوے یاد کرتے ہیں اور آسماں اور زمیں کی پیدائش اور خلقت پر غور کرتے ہیں (اور کہتے ہیں) اے ہمارے رب:تو نے اس (کائنات) کو ہہودہ عبث پیدا نیہں کیا ،تو پاکیزہ ہے ہمیں جہنم کی عذاب سے نجات عطا فرما- سورہ آل عمران آیت نمر190،191
دوسری جگہ پر قرآن پاک میں خلقت انسان کے با ہدف اور با مقصد ہو نے پر زور دی گی ھے-جیسا کہ کیا تم نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ہم نے تمہں عبث خلق کیا ہے اور تم ہماری طرف نیہں پلٹو گے :سورہ مومنون آیت نمبر 115
انسان کی تخلیق کا ایک بنیادی وجہ علم و معرفت کا حصول اور جستجو ہے تاکہ انسان کو یہ پتہ چلے کہ اس کی اصل منزل کیا ہے اس چیز کو قرآن کریم میں بڑی واضح طور پر بیاں کی گی ہے کہ خدا تو وہ ہے جس نے سات آسمان خلق فرماۓ اور زمیں میں سے اس کے مثل خلق کیا ،اور رب کے فرآمیں ان کے درمیان نازل ہوتے ہیں تاکہ تم یہ جاں سکو کہ وہ ہر چیز پر قادر ہیں اور تمام چیزوں پرعلمی آحاطہ رکھتا ہے-سورہ طلاق آیت نمبر:سورہ طلاق آیت نمبر 12
مذکورہ آیت میں رب کائنات کے علم و قدرت مطلقہ سےآگاہی کو ہدف خلقت بتایا گیا ہے جو خالق کی معرفت سے عبارت ہے اور کمال انسانی کے علمی پہلو کو تشکیل دیتی ہے-
خدا برحق نے انسان کو اس لیے تخلیق کیا ہے کہ وہ اس کی عبادت و بندگی کریں اس کی نعمتون کا شکریہ بجا لائے اور خالق کی طرف سے جو امتحاں و آزمائش اس پرا جائیں اس پر پوری اتریں۔-جیسے کہ ارشاد باری تعالی ہے وہی ہے جس نے موت و حیات کو خلق فرمایا تاکہ تمہں آزمائے کہ تم میں سے کوں بہتر ہے :سورہ ملک آیت نمبر 2
امیرالمومینیں حضرت علیؑ نے فلسفہ عبادت کی طرف بہت زور دے کر فرماتا ہے کہ خداوند تعالی نے مخلوقات کو خلق فرمایا جبکہ وہ ان کی اطاعت سے بے نیاز اور ان کے گناہوں کے نقصاں سا محفوظ تھا –کیونکہ نہ گناہگاروں کی نافرمانی اسے نقصاں پہنچا سکتی ہے اور نہ ہی فرمان بردارون کی اطا عت اس کو فائدہ دے سکتی ہے-(نہج البلاغہ خطبہ نمبر 194) راز خلقت کو جاننا جہاں انساں کی حقیقت و طلبی اور جستجو گری کی حس کی ضرورت اور طلب کو پورہ کرتا ہے وہاں یہ زندگی کی مقصد کی طرف رہنماہی اور اس کا اج اور کل کے مستقبل کے درمیان رابطہ بھی استوار کرتا ہے
انسانی حیات اور زندگی کے ہدف سے آگاہی ،اسے مطمئن ،زمہ دار،پر ولولہ، متحرک اور پر شوق بنا دیتی ہے،جبکہ اس کی ہدف سے محرومی اس سے اضطراب،بے چینی،رنج و الم اور مدہوشی سے ہمکنار کر دیتی ہےاوراسے غیر زمہ دار بنا دیتی ہے-
فرانسیسی دانشور بی سینٹ ہیلر علم اخلاق کے مقدمہ میں آرسطو سے نقل کرتا ہے کہ وہ شخص اپنے اپ سے جنگ لڑتا ہے جو نیہں جاننا چاہتا ہے کہ وہ کہاں سے آیا ہے؟اور کون سا مقد س مقصد ہے جس کے حصول کے لیے اسے اپنے نفس کی تربیت کرنی چا ہیے-
المختصر انسانی خلقت کا اصلی مقصد ہی یہ ہے کہ وہ دنیا میں خدا بزرگ و برتر کے آحکامات کی مکمل پاسداری کریں اور آخرت کے لیے اپنے اپکو تیار کریں کیونکہ نبی آخرالزمان حضرت محمد ﷺ نے فرمایا ہے کہ دنیا اخرت کی کیھتی ہے-کیونکہ انسان کو اس کی دنیا میں کیے گا ئے نیکی نیکی اور بدی کا بدلہ آخرت میں ہی ملے گا اور یہی انسانی تخلیق کا فلسفہ ہے
ذندگی کے مقصد کا تعین ہرانساں اپنے ذہنی استطاعت، فہمی بلوغت اور خالق اور مخلوق کےساتھ ربط کی بنیاد پر کرتا ہے۔ اس لیے کوئی ایک مقصد سب پر نہیں ٹھونس دیا جا سکتا ہےـ جو اپ اور مسٹر خلیل سوچتے ہیں یا سمجھتے ہیں وہ اپ کی ذہنی استطاعت ہے جہاں بھی ہے اور جیسا بھی ہےـ ضروری نہیں کہ سب لوگوں کی ذندگی کا مقصد ایک جیسا ہوـ اور اپ دونوں اور میں کون ہوتے ہیں لوگوں کو ان کے ذندگیوں کا مقصد سکھانے والے؟
انسانی تخلیق کا مقصد حضرت محمد ﷺ کی سنتوں پر عمل کرکے ہی پورا کیا جاسکتا ہے ، جو الله کے نبی کی اطاعت کی بجانے اپنی مرضی یا اپ ﷺ کے علاوہ کسی اور کی مرضی اور طریقے کو اپنایئے گا وہ کبھی بھی مقصد کے حصول میں کامیاب نہیں ہو پانے گا ، اس کیلے پانج بنانے اسلام پر مکمل امل کرنا کرنا بنیادی اعمال ہیں ،، یہی سے سب کچھ شروغ ہوتا ہے ،، الله ہم سب پر رحم فرمانے .. امین