میں نے کب کب قانون توڑا؟

1

 شیرولی خان اسیر سرکاری ملازمت کے دوران بہت کم لوگ ایسے ہوں گے جنہوں نے سرکاری قوانین و ضوابط کی مکمل پیروی کی ہو۔  ہم لوگ جو قانون اللہ کی خلاف ورزی سے باز نہیں آتے تو اپنے جیسے بندوں کے بنائے ہوئے رولز اینڈ ریگولیشنز کی کیونکر پرواہ کریں؟   البتہ میں سرکاری قوانین پر عمل کرنے کے معاملے میں کچھ زیادہ ہی محتاط رہا ہوں اور اصولوں پر سودہ بازی نہ کرنے والوں میں شامل رہنےکی اپنی حد تک کوشش کی ہے، جس کا علم میرے ساتھ کام کرنے والے اساتذہ، ملازمین اور شاگردوں کو بھی ہے۔ ان کو شاید یہ بات معلوم نہیں کہ اس “با اصول اور پابند ضوابط” استاد کم آفیسر نے بھی چند مواقع پر اپنے اصول اور سرکاری قوانین کی دھجیاں اڑائی  ہیں۔ آج میں وہی آپ کو بھی بتانا چاہتا ہوں تاکہ ایک طرح کی “کنفسشن” بھی ہوجائے۔ آج سے کوئی چونتیس پینتیس سال پہلے کی بات ہے میں چترال کے ایک گاؤں کے ہائی سکول میں ہیڈ ماسٹر تھا۔ اس وقت ہائی سکولوں سے متصل پرائمری سکولوں کا انتظام و انصرام ماسوا تنخواہ کے سکول کے ہیڈماسٹر کے ہاتھ میں ہوتا تھا۔ پرائمری سیکشن کے اساتذہ کی صرف تنخواہ سب ڈویژنل ایجوکیشن آفیسر تقسیم کیا کرتا تھا جب کہ باقی انتظامی اختیارات ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر کے پاس تھے۔ میرے اس سکول کے حصہ پرائمری کا ایک استاد بیمار ہوگیا اور بیماری ٹی بی تشخیص ہوئی جو اس وقت مہلک بیماری جانی جاتی تھی اور علاج کافی لمبے عرصے تک جاری رہتا تھا۔ انہیں علاج کے لیے پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں بھرتی کیا گیا۔ استاد مذکور کے گھر میں پانج چھہ بچے اور بیوی بے سہارا رہ گئے کیونکہ وہ استاد اپنے گھر کا واحد کفیل تھا اور کسی قسم کا ذریعہ آمدنی نہیں تھا۔ سرکاری ضوابط کے مطابق استاد کو بحالی صحت کے لیے چھٹی تو مل سکتی تھی مگر تنخواہ نہیں مل سکتی تھی۔اس لیے اسکی تخواہ بند ہونا تھی اور اسے لیو سیلیری کی مد سے لیو سیلری دینی تھی۔ اس مد میں سالانہ بجٹ میں پیسے ملنا مجھے یاد نہیں پڑتا۔ جس کے لیے ضمنی بجٹ کی منظوری کا کیس چلتے چلتےچارپانج مہینے بلکہ سال بھی گزر جاتا تھا اور عام طور پر مالی سال کے آخری مہینوں یعنی مئی/ جون میں بجٹ  مل جاتاتھا۔اس صورت میں اس کے بال بچوں کیلے فاقہ کشی یقینی تھی۔ میں نے اس مسلے پر بہت سوچا اور پھر اپنے قابل احترام استاد جناب فضل ادین ایس ڈی ای او بونی سے ذاتی طور پر رجوع کیا اور سارا ماجرا کہہ سنایا اور عرض کی “استاد محترم! ہم اس کیس میں اللہ کے قانون کو فالو کریں گے۔ آپ تنخواہ دیتے جائیں میں اسے چھپا رکھوں گا تاکہ اس کے بچے بھوکے نہ رہ جائیں اور وہ خود ادویات خریدنے کے لیے کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے پرمجبور  نہ ہو جائے”۔  فضل الدین صاحب انتہائی نرم دل انسان ہونے کے ناطے میری درخواست مان لی۔ میں نے اپنے سٹاف ممبران کے تعاون سے سکول میں اس بیمار استاد کے مفوضہ مضامین کی تدریس میں فرق آنے نہیں دیا اور میرےعظیم استاد فضل الدین صاحب نے ان کی تنخواہ جاری رکھی جو ہر مہینے باقاعدہ اس کے گھر پہنچا دی جاتی تھی۔ پورا ایک سال بعد وہ استاد صحت یاب ہوکر اپنی ڈیوٹی دوبارہ شروع کی۔ کئی سال مزید سروس کرنے کے بعد اپنی سروس پوری کی اور ساٹھ سال کی عمر میں پنشن پاکر آرام سے گھر بیٹھا ہے اور اچھی خاصی صحت مند ہے۔ کوئی بیس پچیس سال بعد ایک دفعہ نیشنل بنک مستوج برانچ میں ان سے ملاقات ہوئی تو اسے ہشاش بشاش اور تندرست و توانا پایا۔ جب بھابی کے بارے پوچھا تو حسب معمول مسکراتے ہوئے بتایا کہ ایک دوسری شادی کی بھی ضرورت پڑی ہے۔ اب تک چار شادیاں کرچکا ہے اور درجنوں بچوں کا باپ ہے (چشم بد دور)۔ دوسری دفعہ میں نے جو قانون توڑا وہ قانون شکنی اپنے ایک مشفق و مہربان استاد کے ساتھ محکمانہ نا انصافی کے خلاف ایک بغاوت تھی۔ میرے ایک بزرگ استاد کا تبادلہ میرے سکول میں ہوا۔ استاد کا گھر تریچ میں تھا اور اس کی ٹرانسفر سینکڑوں میل دور ہائی سکول بونی میں کردی گئی۔ یہ غالباً 1986 تھا۔ موصوف استاد گرامی کی عمر اس وقت ساٹھ سے اوپر ہوچکی تھی۔ اس بات پرآپ کو حیرانی ہوگی کہ ایک سرکاری ملازم ساٹھ سال کے بعد بھی ملازمت میں کیسے رہ سکتا ہے؟ جب 1969 میں ریاست چترال ضلع کی صورت میں سابق این ڈبلیو ایف صوبہ میں شامل کی گئی تو ملازمیں کے لیے سروس رولز کے مطابق ریکارڈ تیار کرنے کی ضرورت پڑ گئی۔ معلمین کے پاس تاریخ پیدائیش کی سند نہیں ہوا کرتی۔ ان کو ڈاکٹری سرٹفیکیٹ لانے کا حکم ہوا تو اندازے کے مطابق سول سرجن چترال نے ان کو برتھ سرٹفیکیٹ جاری کیا۔ یوں ان کو ان کی اصلی عمر سے پانج سے دس سال تک کم دکھایا گیا۔ آپ خود اندازہ لگائیں کہ ایک استاد نے مجھے1961 میں چھٹی جماعت میں پڑھایا ہو اور اس وقت ان کی عمر کم وبیش آٹھتیس چالیس سال ہوگی تو 1986 میں اس کی عمر کتنی ہو سکتی تھی؟ جب میرا بوڑھا استاد چارج لینے میرے دفتر پہنچا تو میری آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔ میں نے انہیں چارج تو دیدیا لیکن ڈیوٹی کے معاملے میں دو شرائط پیش کیں۔ پہلی شرط یہ تھی کہ استاد محترم اپنے گھر جاکر بیٹھیں گے اور آللہو آلہو کا وظیفہ کریں گے۔ تنخواہ اس کے گھر پہنچ جایا کرے گی۔ ان کے مفوضہ مضامین ان کا یہ شاگرد خود پڑھایا کرے گا۔ اگر یہ منظور نہ ہو تو ان کی رہائیش اور خوردو نوش کی ساری ذمے داری اس کے شاگرد کے کندھوں پر ہوگی۔ میری دونوں شرائط میرے محترم استاد کے لیے مشکل لگیں مگر میں کب ماننے والا تھا۔ میں نے یہ دلیل پیش کی کہ اگر میرے استاد کو اس کی اس  ضعیف العمری میں میرے ماتحت اتنی دور ڈیوٹی پر لگانا انصاف ہے تو میرا فیصلہ بھی عین انصاف ہے۔ صرف ایک سال بعد استاد میرے پاس آکر فرمانے لگے بیٹا! مجھے ریٹائر کریں۔ اس طرح گھر بیٹھے تنخواہ لینا مجھے بالکل اچھا نہیں لگتا ہے۔ میں نے عرض کی “استادمحترم! میرے گھر میں رہیے اور ڈیوٹی کیاکریں”۔ انہوں نے نہیں مانا اور پنشن لینے پرضد کیا تاکہ  سکون کے ساتھ باقی عمر گزار سکیں۔ میں نے مجبوراًان کا پنشن کیس تیار کراکے انہیں باعزت پنشن پر بھیجا۔ اس قسم کی قانون شکنیاں مجھ سے ہو کرتی تھیں جب میں دوسروں کے ساتھ بے انصافی ہوتی دیکھتا تھا۔ مجھے یقین تھا اور ہے کہ اس قسم کی قانون شکنی خدا کے نزدیک جرم کے زمرے میں نہیں آتی ہے۔]]>

1 Comment
  1. inayatullah faizi says

    Well done and well written.

Leave A Reply

Your email address will not be published.

error: Content is protected!!