Chitral Today
Latest Updates and Breaking News. Editor: Zar Alam Khan.

ماضی کے آباد کار

یاد ماضی

شیرولی خان اسیر

گزشتہ تین دھایوں میں یہاں چترال میں اے کے آر ایس پی اور ایس آر ایس پی نے آبادکاری اور معاشی ترقی میں بہت بڑا رول ادا کیا ہے۔ خاص کرکے اے کے ار ایس پی کی خدمات زیادہ وزنی ہیں۔ اس مضمون میں میں ان کا ذکر نہیں کر رہا ہوں۔ ان پر کافی لکھا جاچکا ہے۔ میرے اپنے علاوہ دوسرے فاضل لکھاریوں نے کافی سے زیادہ ان پر روشنی ڈالی ہیں۔ ابھی حال ہی میں ایڈوکیٹ نیاز اے نیازی کا ارٹیکل ” دہی ترقی کا سفر” ایک خوبصورت اور جامع تحریر ہے۔ میں یہاں پر ان ترقیاتی کاموں کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو پاکستان بننے کے بعد یعنی سن پچاس کی دھائی میں عوام کی” اپنی مدد آپ” کے جذبے کے تحت انجام پائے تھے۔ ریاست کے زمانے میں بھی ایسے بہت سے منصوبے مکمل ہوئے تھے جو مہتر وقت کی ہدایت پر عمل میں لائے گئے تھے۔ ان کی تعمیر و تکمیل میں ریاست کتنی معاون رہی تھی اس کا مجھے علم نہیں البتہ بڑے بوڑھوں سے جو سنا تھا اس کے مطابق یہ کام ” جبری بیگار” کے ذریعے کروائے جاتے رہے تھے۔ ان میں عوام کا اپنا رضاکارانہ جذبہ شامل نہ تھا۔ نیز ان منصوبوں کی تکمیل کے بعد حکمران وقت اور ان کے وزیرو مشیران کو بھی اچھا خاصا حصہ مختص ہوا کرتا تھا۔ جو آج ان کی اولاد کی ملکیت ہیں۔ سن پچاس کے شروع میں حکومت پاکستان کی طرف سے چترال میں متعین وزیراعظم / پولیٹیکل ایجنٹ کی حوصلہ افزائی سے دو آہم ترین ترقیاتی کام عوام کے ہاتھوں رضاکارنہ محنت کے ذریعے انجام پائےتھے۔ پہلا قابل قدر کام چترال کے دور دراز وادیوں کے پسماندہ گاؤنوں میں پرائمری سکولوں کا اجرا تھا۔ عوام نے اپنے گاؤنوں کے بزرگوں کی سرپرستی میں جگہہ جگہہ سکولوں کے لیےکچی عمارتیں کھڑی کیں۔ عوام نے عمارتوں کے لیےمفت زمین، مفت عمارتی لکڑی اور خدمات مہیا کیں۔ کسی پر زور زبردستی نہیں تھی۔ البتہ قدیم سے جاری اتفاق کی روایت قائم تھی ۔ گاؤں کے باشعور افراد کی تحریک پر لبیک کہتے ہوئے ہر آدمی نے اپنی حیثیت کے مطابق ذوق و شوق اور رضاکارانہ جذبے کے تحت ان منصوبوں میں اپنا حصہ ڈالا۔

یوں چترال بھر میں ابتدائی تعلیم کے مدرسے وجود میں آگئے۔ شروع شروع میں ان مدرسوں میں پرائمری پاس استاد مقرر ہوئے جس کا ذکر میں نے پہلے سلسلوں میں کیا ہے۔ پھر آہستہ آہستہ زیادہ قابلیت کے حامل اساتذہ میسر آتے رہے۔ اس طرح سارے چترال میں خواندگی کا آغاز ہوا۔ ان پرائمری سکولوں سے جب پرائمری پاس بچے نکلے تو چند ایک سکولوں کو مڈل تک ترقی دی گئی جہاں سے مڈل پاس لڑکے نکل کر مدرسی کا پیشہ سنبھال لیا۔ یوں شمع سے شمع جلتی رہی۔ میرے معلومات کے مطابق سوائے ہائی سکول چترال اور دروش کے جتنے سکول بنے وہ سب عوام کے اپنے ہاتھوں بنے تھے۔ سرکار صرف مدرس مقرر کیا کرتی اور ان کو آٹھ دس روپے ماہانہ تنخواہ دیا کرتی تھی۔

دوسرا آہم کام معاشی ترقی کے لیے غیرآباد زمینوں کی آبادکاری تھی۔ یہ کام مدرسوں کی عمارتوں کی تعمیر کے مقابلے میں کافی مشکل تھا۔ سنگلاخ زمین اور پہاڑیوں کو کاٹنے کے جدید اوزار نہیں تھے۔ لوگوں کے پاس پیسہ نہیں تھا۔ حکومت کی طرف سے کوئی مدد نہیں تھی۔ ان حالات میں بعض آباد کار بزرگ لوگوں کی رہنمائی میں ایسے بڑے بڑے منصوبے مکمل ہوئے جو آج کرؤڑوں کی لاگت سے تکمیل نہ ہو پاتے۔ میں یہاں پر مستوج اور یارخون کے اس قسم کے منصوبوں کا تعارف پیش کرنا چاہوں گا اور دوسری وادیوں کے لکھاریوں سے یہ امید رکھوں گا کہ وہ اپنے اپنے علاقوں کے ایسے ترقیاتی کاموں کا ذکر کرکے ان افراد کی خدمات کا اعتراف کریں اور انہیں خراج تحسین پیش کریں، کیونکہ یہ ان تاریخ ساز لوگوں کا حق بنتا ہے۔ اس وقت ان بزرگوں کی تیسری چوتھی نسل ان کی مشقت کا پھل کھا رہی ہے لیکن بہتوں کو معلوم نہیں کہ ان نو آبادیات کی آباد کاری کب اور کس کے ہاتھوں ہوئی تھی۔

وادی یارخون میں اس نوعیت کا پہلا منصوبہ میراگرام کے لوٹڈوک کے لیے نہر کشی تھی یہ بہت بڑا رقبہ زمین زوندران یارخون کی موروثی ملکیت تھی۔ ہر لحاظ سے محفوظ ترین اس وسیع قابل کاشت غیرآباد کے لیے شیچ گول سے نہرنکالی گئی جس میں شہزادہ خوشوقت الملک گورنر مستوج کی امداد شامل تھی۔ اس منصوبے کی سرپرستی میرے نانا فراست بیگ المعروف لیڈر نے کی تھی۔ نانا فراست بیگ اپنی قوم کے قابل احترام بزرگ تھے اور انتہائی آباد کار آدمی تھے۔ پچاس کی دہائی میں ان کی پھلدار پودوں کی نرسری ہوا کرتی تھی جہاں سے میں نے بھی کئی مرتبہ پودے لاکر اپنے باپ کی نوآباد زمین ( چارغیری) میں لگائے تھے۔ وہ ہر مانگنے والے کو مفت پودے دیا کرتے۔ لوٹڈوک نہر کے نیچے ہزاروں جریب قابل کاشت زمین کو پانی میسر آیا اور یہ زمین مقامی لوگوں میں تقسیم ہوئی ۔ شیچ ندی میں پانی کی کمی کے باعث یہ زمین آج تک مکمل طور پر آباد نہ ہوسکی ہے تاہم جتنا حصہ آباد ہو چکا ہے میراگرام کی باسیوں کے ایندھن اور چارے کا تمام تر انحصار اس نوآبادی پر ہے۔ اس کے علاوہ میراگرام ہی کی ایک اور نہر ” چمسیر” بھی نانا فراست بیگ اور خوش لال رضاخیل کی سرکردگی میں بنی۔ خوش لال مرحوم ایک مثالی رضاکار خدمت گار تھے۔ ان کی مہمان نوازی اور لوگوں کا احترام قابل تقلید تھے۔ چمسیر نہر کی تعمیر سے نہ صرف سینکڑوں جریب محفوظ ترین زمین آباد ہوگئی بلکہ گاؤں میراگرام کے حسن کو بھی دوبالا کردیا، نیز اورکن گول سے موضع ایمیت کے لیے نہر کی تعمیر بھی بابا لیڈر کی معیت میں ہو گئی تھی۔ یہ نہر غالباً ساٹھ کی دہائی میں بنی تھی۔ انہوں نے اپنی برادری کے لوگوں کی مخالفت کے باجود یہ نہر بنا ڈالی۔ بہت سے لوگوں کے گھروں کے اوپر سے گزرتی ہوئی یہ نہر ان کے گھروں اور آباد کھیتوں کے لیے خطرہ تھی۔ لیڈر بابا نے اپنی زمین کی ضمانت دے کر نہر کی تکمیل کروائی۔ یہاں آباد لوگ آج بھی ان کو دعائیں دیتے ہیں۔ اس نہر کی بدولت ایمیت کو وافر مقدار میں آبپاشی کے لیے پانی میسر آیا۔ یہ خشک زمین آج ایک سرسبزو شاداب خوبصورت گاؤں بن چکا ہے اور گاؤں کے لوگ زرعی لحاظ سے خود کفیل ہوگئے ہیں۔

اس کے بعد دوسرا بڑا منصوبہ چارغیری ( موجودہ لغل آباد) کی نہر تھی جو آج “لالو ژوئے/ چارغیریو ژوئے” کے نام سے معروف بانگ بالا کی سب سے آخری نہر ہے۔ یہ نہر قبلہ گاہم لغل خان لال اور ماموں گل خان نظار براموش کی سرپرستی میں عرصہ دو سال کی محنت و مشقت کے بعد1954 میں تیار ہوگئی تھی۔ یہ کل چار کلومیٹر لمبی نہر بانگ ندی سے نکالی گئی ہے جوموضع پترانگاز تک جاتی ہے۔ جس کا دو تہائی حصہ ٹھوس پہاڑ اور سنگلاخ زمین پر مشتمل ہے۔ اس کی تعمیر کے لیے اوزار اور بلاسٹنگ میٹرئیل چکدرہ دیر اور سوات سے لائے گئے تھے۔ میرے ابو بتا یا کرتےکہ وہ گھوڑوں اور گدھوں پرلاد کر یہ سازو سامان چکدرہ دیر سے لائے تھے۔ یہ بات آج افسانہ لگتی ہے۔ اس نہر کی بدولت کم از کم دو ہزار جریب زمین آباد ہوگئی۔ اس وقت اس نہر کے نیچے 25 گھرانے مستقل آباد ہیں جب کہ تقریباً 40 گھرانوں کے ایندھن، عمارتی لکڑی اور جانوروں کے لیے چارے کا کلی انحصار اس نو آباد زمین پر ہے۔ مستقل طور پر رہائش پذیر افراد کے لیے یہ نہر لائف لائین کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کی مرمت و بحالی پر ہر سال لاکھوں روپیوں کی محنت صرف کرنا پڑتی ہے۔ اس نہر نے قدیم بانگ کو سیلابوں اور پہاڑوں کے ٹوٹ کر گرنے والے پتھروں سے کسی حد تک بچائے رکھی ہے۔

عوام کی نہر کشی کا تیسرا بڑا منصوبہ بانگ پائین کی بالائی نہر ہے جس کی تعمیر بانگ کی عوام نے لفٹننٹ عبدالجہاں خان اور پیر غلام علی شاہ کی سربراہی میں غالباً 1956 میں مکمل کی۔ یہ نہر بھی عوامی اشتراک عمل کی عمدہ مثال ہے جو ایک وسیع غیرآباد زمین کی آباد کاری کا باعث بنی اور سینکڑوں مقامی افراد نے اس سے استفادہ کیا۔ اس نہر کی لمبائی بھی کم از کم چار کلومیٹر ہے جس کا ڈیڑھ کلومیٹر حصہ عمودی پہاڑ میں سے گزرتا ہے۔ بانگ پائین اور بیرزوز کی عوام کا سارا دارومدار اس نہرپر ہے جو جلانے کی لکڑی، عمارتی لکڑی اور مال میویشیوں کے لیے چارہ اسی زمین سے حاصل کرتے ہیں۔ اس نہر کے نیچے بھی کئی ایک بے گھر لوگ مالکان زمین بن گئے ہیں۔ میرے ابو کہا کرتے تھے کہ چارغیری کی نہر تیار ہوگئی تو چیرمین ( عبدالجہاں خان) نے میرے ہاتھوں نہر بانگ پائین کی نہر پر کام کا آغاز کروایا تھا۔ اسی دور کا ایک اور عوامی منصوبہ اچھوہون اور پترانگاز کی نہر ہے جو پاور گول سے نکالی گئی ہے۔ اس نہر کی بدولت دو گاؤں اچھوہون اور پترانگاز آباد ہوگئے جو اس سے پہلے آبپاشی کے لیے کم آبی کا شکار تھے اور ان کا دو تہائی حصہ بنجر پڑا تھا۔ اس نہر کی تعمیر میں حاکم یارخون لنگر مراد خان نے عوام کی رہنمائی کی تھی۔ موضع پاور، اوچھوہون اور پترانگاز کی عوام کی زندگیوں کا سارا دارومدار اس وقت اسی نہر کے ماتحت آباد زمین پر ہے۔ جلانے کی لکڑی اور پالتو جانوروں کے لیے چارہ اس زمین سے حاصل کرتے ہیں۔ اس نہر کی لمبائی ساڑھے چار کلومیٹر ہے جو زیادہ تر پہاڑی سے گزرتی ہے۔

پرکوسپ مستوج میں بھی دو نئی نہریں اس دور کی یاد گار ہیں۔ پریماڑی کی طرف نکلنے والی نہر سے سینکڑوں جریب آباد ہوگئی اس کی تعمیر وزیر لال، افسر خان لال اور برادری کے افراد نے کی تھی۔۔ اسی طرح موژو دیہہ کے ڈوک نامی غیرآباد کی نہر شکور رافع بابا کی سرپرستی میں تعمیر ہوئی تھی۔ میرے چچا میر صاحب خان کا بھی اس نہر کی تعمیر اور آبادکاری میں بڑا کردار تھا۔ اس نہر کا سروئے میرے والد صاحب نے اس “کولیک” ( گلگت سے تعلق رکھنے والا مقامی نہر کشی کا انجینئیر) سے کروایا تھا جو نہر لغل آباد کا سروے کیا تھا اور تعمیر میں انجینیئر کا کام کیا تھا۔ یہ سطح مرتفع نما زمین ہر قسم کی قدرتی آفات سے محفوظ ہے۔ پریماڑی اور موژو دیہ کی عوام کے لیے یہ نہریں نہ صرف معاشی لحاظ سے اہمیت رکھتی ہیں بلکہ ان کے مستقبل کے لیے محفوظ پنا گاہ بھی ہیں۔ان کے علاوہ ساٹھ کی دہائی میں غورو کا زیرین گاؤں شوہچیلی لشٹ بھی آباد ہوا۔ اس کی نہر دودوئے شاہ نے دریائے یارخون سے نکالی تھی۔

You might also like

Leave a Reply

error: Content is protected!!