بڑا ہسپتال مفت علاج

0

داد بیداد

 

ڈاکٹرعنایت اللہ فیضیؔ

ایک کالمی خبر ہے پاکستان کا سب سے بڑا خیراتی ہسپتال خیبر پختونخوا کے سب سے بڑے ضلع چترال میں تعمیر ہونے والا ہے جس کے لئے گذشتہ 10 سالوں سے زمیں نہیں مل رہی ہے خبر پڑھ کر لوگوں نے کہا یہ کونسی تعجب کی بات ہے پاکستان کا وزیر اعظم چترال میں 250 بستروں کا ہسپتال بنا نا چاہتا تھا زمین نہ ملنے کی وجہ سے منصوبہ معطل کیا گیا مگر وزیر اعظم کو 200 کینال زمین کی ضرورت تھی ڈاکٹر باری صاحب کو صرف 10 کنال زمین چاہیے 10 کینال زمین چترال میں صوبائی حکومت کے پاس بھی مو جود ہے ایف سی کے پاس بھی مو جود ہے پولیس کے پاس بھی موجود ہے سی اینڈ ڈبلیو کی تحویل میں بھی اتنی زمین ہے ضلعی حکومت اور تحصیل میونسپل ایڈ منسڑیشن کے پاس بھی ہے

مہتر چترل ہزہائی نس فتاح الملک علی ناصر کے پاس بھی ہے چترال چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری بھی اتنی زمین فراہم کر سکتی ہے کراچی،لاہور ،پشاور ،جاپان ،برطانیہ اور امریکہ میں ایسے دردمند لوگ ہیں جو ایک خیراتی ہسپتا ل کے لئے 10 کنال زمین خرید کر دے سکتے ہیں قاری فیض اللہ چترالی 6 سالوں سے اس کیلئے جدہ جہد کر رہے ہیں مگر اب تک زمین بدست نہ ہو سکی ڈاکٹر باری صاحب کا خیراتی ہسپتال چترال کیلئے لواری ٹنل اور سی پیک کی طرح اہم منصوبہ ہے ڈاکٹر باری صاحب پاکستان کی واحد شخصیت ہیں جنہوں نے پاکستان میں انڈس ہسپتال کے نام سے خیراتی ہسپتال قائم کیا اور اس کا معیار بڑے بڑے کاروبای یا منافع بخش ہسپتالوں کے برابر رکھا اس وقت چترال کی صورت حال یہ ہے کہ پورے ضلع میں ملٹی پل فریکچر کی سرجری کا انتظام نہیں ہے جدید دور میں یہ معمول کا اپریشن ہے جو دیر اور سوات کے ہسپتالوں میں آسانی کے ساتھ ہو جاتا ہے یہاں کلچر کا ٹیسٹ نہیں ہوتا جو بیکٹریا کی حساسیت کو معلوم کر کے دوا تجویز کرنے کا معمولی ٹیسٹ ہے

اسی طرح ایم آر آئی اور سٹی سکین کی سہولت پورے ضلع میں نہ حکومت نے دی نہ آغاخان ہیلتھ سروس نے دی ہے اور نہ فوجی ہسپتال میں اس کی گنجائش رکھی گئی چنانچہ اس ایکسرے پر چار ہزار روپے لگتے ہیں مگر مریض کو ایمبولینس میں ضلع سے باہر لیجانے اورلانے پر 50 ہزار روپے کا خرچہ آتا ہے بعض مریض راستے میں دم توڑدیتے ہیں دل،گردہ،جگر،آنکھ اور دیگر نازک اپریشنوں کا کوئی انتظام نہیں ہے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کو 2006 میں کٹیگری ’’بی‘‘قرار دیا گیا مگر اس کو 1970 والی کٹیگری سی کی سہولیات بھی نہیں دی گئیں چنانچہ ضلع کے 14850 مربع کلومیٹر رقبے میں 5 لاکھ کی آبادی کو دیر،سوات مردان اور پشاور یا اسلام اباد جانا پڑتا ہے ڈاکٹر باری صاحب نے 10 کنال زمین کیلئے گذشتہ 10 سالوں میں ہر ایک کے دروازے پر دستک دی ہے وفاقی حکومت کے سامنے جھولی پھیلائی ،صوبائی حکومت کے سامنے اپنی بات رکھی ،ضلع کی انتظامیہ سے بات کی مگر کسی کو اس کام میں اپنا حصہ ڈالنے کی توفیق نہیں ہوئی ڈاکٹر باری صاحب کیسا ہسپتال قائم کرنے والے ہیں اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں انڈس ہسپتال میں علاج معالجہ کا تجربہ جن لوگون کو ہوا ہے وہ جانتے ہیں کہ ڈاکٹر باری صاحب کے ہسپتال کا معیارشفا انٹرنیشنل ،آغاخان ہسپتال اور شوکت خانم ہسپتال کے برابر ہے اس کے باوجود علاج ،تشخیص اور سرجری بالکل مفت ہے مریضوں اور تیمارداروں کیلئے کھانے پینے کابھی مفت انتظام ہوتا ہے یہ واحد ہسپتال ہے جہاں کوئی بھی غریب کسی سفارش کے بغیر داخل ہو کر مفت علاج کی سہولت سے فائدہ اُٹھاسکتا ہے جہاں ڈاکٹر صرف مریض کا مرض دیکھتے ہیں اس کی جیب نہیں دیکھتے کوئی سرکاری ہسپتال ایسا نہیں ہے کوئی بھی پرائیویٹ ہسپتال ایسا نہیں ہے جہاں بغیر سفارش کے علاج کی قیمت کا کوئی حصہ معاف کیا جاتا ہو

چترال کی 5 لاکھ آبادی کیلئے اتنے بڑے معیار کا اتنا بڑا ہسپتال غنیمت ہوگا مگر اس میں جو شرط رکھی گئی ہے وہ ہسپتال کے قیام کی راہ میں رکاوٹ ہے 10 کنال زمین کا انتظام ،دیر ،سوات ،پشاور اور مردان میں آسانی سے ہو سکتا ہے وہاں سول سوسائیٹی کی آواز بہت توانا ہے چترال میں سول سوسائیٹی کا وجو دنہیں کوئی ایسی ایسو سی ایشن ،کوئی ایسی تنظیم نہیں جو ڈاکٹر باری اور قاری فیض اللہ چترالی کی آواز پر لبیک کہہ کر آگے بڑھے خیراتی ہسپتال کیلئے 10 کنال اراضی فراہم کرے اور لوگوں کو علاج معالجہ کی مفت سہولت فراہم کرے ایم این اے شہزادہ افتخار الدین ضلع ناظم حاجی مغفرت شاہ ،ایم پی اے سلیم خان اور ایم پی اے فوزیہ بی بی اگر دلچسپی لیں تو سی اینڈ ڈبلیو کی تحویل میں فالتوزمین بہت ہے اس میں سے 10 کنال زمین بورڈ آف ریو نیو کے ذریعے بڑی آسانی سے خیراتی ہسپتال کو دی جاسکتی ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

error: Content is protected!!