چترال کا سیاسی دنگل
گو کہ عام انتخابات کو ایک برس سے زائد کا عرصہ درکار ہے لیکن ملک کے دوسرے حصوں کی طرح ضلع چترال میں بھی سیاسی بساط بچھایا گیا ہے۔ فی الوقت سیاست کے اس میدان میں چترال کے تین بڑے پہلوانوں کے درمیان رسہ کشی جاری ہے جس کے اثرات بعد کے دنوں میں دوسری جماعتوں پر بھی پڑ سکتی ہے ان تینوں شخصیات میں سے ایم پی اے چترال اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ضلعی صدر سلیم خان، سابق ضلعی امیر جماعت اسلامی اور موجودہ ضلع ناظم حاجی مغفرت شاہ اور آل پاکستان مسلم لیگ کے سابق صدر اور ممبر ضلع کونسل خالد پرویز کے درمیان مقابلہ جاری ہے۔ تینوں ایکدوسرے کی ٹانگین کھینچنے اور سازشوں سے ایکدوسرے کو ناکوں چنے چبوانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اس سلسلے میں ہر جانب سازش، کھنچا تانی، مہروں کا استعمال، اسکیموں کا افتتاح، پریس کانفرنسز اور وفاداریاں تبدیل کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
سازش اور ایک دوسرے کی ٹانگین کھینچنے کی روایت چترالیوں میں کوئی نئی بات نہیں بلکہ سادہ لوحی اور امن پسندی کی آڑ میں عیاری و مفادات پرستی اہالیان چترال کو ورثے میں ملی ہیں جس کا اظہار سابق ریاستی دور میں چترال کا دورہ کرنے والے انگریزوں نے بھی کیا ہے۔ اور اس کا مظاہرہ ہر الیکشن کے موقع پر دیکھنے کو ملتا ہے۔ البتہ سن دوہزار تیرہ تک چترال بہت حد تک شخصی سیاست سے پاک تھا جہاں پاکستان پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی جیسی نظریاتی جماعتوں کی موجودگی میں پارٹی پالیٹکس ہوتی تھی لیکن گزشتہ چار برسوں کے دوران چترال کی سیاست برق رفتاری سے نظریات سے نکل کر ہر جانب شخصی سیاست کے زیر نگین آچکے ہیں۔ آج چترال کی حدتک پاکستان پیپلز پارٹی کا کہیں نام ونشان نظر نہیں آتا البتہ سلیم خان ایک بڑے سیاسی قد کاٹھ کے ساتھ میدان میں موجود ہے اور انہوں نے اپنے گزشتہ نو برسوں کی صدارت کے دوران مضبوط شخصیت کی حامل افراد کو ایک ایک کرکے پارٹی کے بے دخل کیا اور اب وہ پی پی پی پی چترال کے سیاہ وسفید کے مالک بنے بیٹھے ہیں۔ انہوں نے پارٹی تنظمیوں کو مضبوط بنانے کی بجائے اپنے جی حضور افراد پر مشتمل ایک لابی بنائی ہے۔ طویل عرصے سے اقتدار پر براجمان رہنے کی وجہ سے سلیم خان کا اب بھی مضبوط سیاسی شخصیت کے مالک ہے کہا یہ جارہاہے کہ چترال کے بڑے سیاسی خانوادے ان سے خائف ہے جس کی وجہ سے انہیں گرانے کے لئے ان کے گرد پھندہ بنا جارہاہے۔ اور سلیم خان صاحب بھی اقتدار پر دوبارہ قبضہ جمانے کے لئے ہر طرح کے حربے استعمال کرنے میں مصروف ہیں۔ خالد پرویز صاحب سن دوہزار تیرہ کے الیکشن میں ناکامی کا بدلہ سلیم خان سے چکانے کے انتظار میں ہیں۔ چترال کی دوسری بڑی نظریاتی جماعت جماعت اسلامی تھی۔ آج حالت یہ ہے کہ ضلع ناظم چترال اور جماعت کے سنئیر رہنما حاجی مغفرت شاہ بھی نظریاتی سیاست کو خیر باد کہتے ہوئے ذاتی سیاست میں مگن ہے۔ گزشتہ دو بلدیاتی انتخابات میں وہ کمال ہوشیاری سے ضلع نظامت پر قبضہ جمانے میں کامیاب رہے لیکن اب کے بار ان کی نگاہین صوبائی یا قومی اسمبلی پر مرکوز ہے۔ سلیم خان سن دو ہزار پندرہ کے بلدیاتی انتخابات کے بعد ضلعی نظامت کے حوالے سے غیر ضروری طور پر حاجی مغفرت شاہ سے الجھ کر ان کی مخالفت بھی موڑ لی ہے اور ضلع ناظم بھی پرانے حساب چکانے کو بے تاب نظر آرہے ہیں ۔
خالد پرویز صاحب اپنے والد محترم شہزادہ محی الدین کی لیگسی کو برقرار رکھنے کے لئے بیک وقت ضلع ناظم اور سلیم خان کو گرانے کے لئے تدبیریں اپنا رہے ہیں، پاکستان تحریک انصاف اور جمعیت علمائے اسلام اس ساری صورتحال میں خاموشی سے یہ سارا کھیل تماشہ دیکھ رہی ہیں۔
مبصرین سلطان محمود کا آل پاکستان مسلم لیگ میں شمولیت اور ضلعی جنرل سیکٹری نامزد ہونے کو سلیم خان کے لئے بد شگون خیال کرتے ہیں۔ چونکہ سلطان محمود پاکستان پیپلز پارٹی ضلع چترال کے جنرل سیکٹری کے امیدوار تھے وہاں شنوائی نہ ہوئی تو اے پی ایم ایل میں جگہ بنا لی اگر وہ صوبائی اسمبلی کی ٹکٹ پر اگلے عام انتخابات میں میدان میں اترا تو سلیم خان کے لئے مشکلات پیدا کرسکتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف بھی صوبائی اسمبلی کے لئے لوٹ کوہ ہی سے امیدوار لانے کا سوچ رہی ہے اگر ایسا ہوتا ہے تو اگلے عام انتخابات کافی پیچیدہ ہوسکتے ہیں۔
حالیہ چند دنوں سے ہونے والی پریس کانفرنسز اور جوابی پریس کانفرنسز اس سارے سیاسی دنگل کا حصہ ہے، عید کے بعد تو چترال میں سیاسی سرگرمیاں رمضان المبارک کے مقابلے میں کہیں زیادہ زور و شور سے شروع ہوگی…….