زندہ قوم کے مفاد پرست رہنما

گو کہ بظاہر یہ ایک واقعہ ہے مگر حقیقت میں یہ آج بھی ہمارے معاشرے کی عکاسی کرتی ہے کہ معاشرتی سوچ ختم ہو کر کسطرح ذات تک محدود ہو گئی ہے۔ پچھلے دنوں پشاور میں چترال کی سیاسی نمائندہ گان ایک بینر اٹھائے پریس کلب کے باہر نظر آئے، بینر میں درج تھا کہ
چترال کی سیٹوں میں کمی ۔۔۔۔۔۔ نا منظور

موجودہ مردوم شماری۔ نامنظور۔نامنظور۔نامنظور اہلیان چترال
محترم سیاسی نمائندہ گان کی کاوشوں کو ہم قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ہمیں خوشی بھی محسوس ہوتی ہے کہ جب تک ہمارے قائدین زندہ و تابندہ ہیں ہمارے حقوق پر کوئی آنچ نہیں آوے گی وہ ہرقدم سوچ سمجھ کر ہی اٹھا تے ہیں تاکہ کوئی ان کی وجہ سے انکی اس بیدار اور زندہ قوم کا مذاق نہ اڑا لے جس کی وہ ہر فورم پر نمائندگی کررہے ہیں۔ مگرجناب عالی ہمیں افسوس اس وقت ہوتی ہے جب آپ اجتماعی مفادات پر ذاتی مفادات کو ترجیح دے رہے ہوتے ہیں۔ یہ حرکت بحیثیت قومی نمائندہ آپ لوگوں کو بلکل بھی زیب نہیں دیتی اور ایسے مواقع پر کئی سوالات جنم لیتے ہیں جو آپ کو لاجواب کر دیں گےاور زندہ قوموں کو دکھ ہوتی ہے جب ان کے نمائندے لاجواب ہوتے ہیں۔ کیونکہ اگر مردم شماری نا منظور ہی تھا تو آپ لوگ ابھی تک کیا خاک چھان رہے تھے، مردوم شماری کے نتائج کا اعلان چھ مہینہ پہلے ہو چکی تھی اور اس وقت کسی نے آواز نہیں اٹھایا کیونکہ بقول آپ لوگوں کے، چترال کی آبادی کو کم دیکھایا گیا تھا جو کہ کرپشن اور خیانت ہے۔ مگر آپ لوگوں نے کوئی آواز نہیں اٹھا ئے، کوئی احتجاج نہیں بلائے کیونکہ تم لوگوں کو فکر صرف ذاتی مفادات کی ہوتی ہے اجتمائی مفادات کوئی معنی نہیں رکھتے۔ مگر جب آبادی کو بنیاد بنا کر حکومت نے سیٹوںمیں کٹوتی کئے تو آپ لوگوں کو محسوس ہوا کہ اب آپ کی سیٹ، جس پر آپ لوگ براجمان ہونے کے لئے قسمت آزمائی کرتے رہتے ہو، خطرے میں ہے تو آپ اہلیان چترال کی طرف سے احتجاج کرنے پریس کلب پہنچ گئے۔ جو یہ ثابت کرتی ہے کہ اگر سوچ قومی نوعیت کی ہوتی تو یقیناً آپ لوگ وقت پر حرکت میں آتے مگر آپ کو ذاتی مفادات کی ہی فکر رہتی ہے۔ جو کہ مایوس کن اقدام ہے۔ ہمارے حقوق آئے روز پامال ہوتے رہتے ہیں اور آپ لوگ اس وقت تک آواز نہیں اٹھا تے جب تک آپ کو ذاتی فائدہ یا مفاد نظر نہ آئے۔ اورایک معصومانہ سوال پوچھتا چلوں کہ اگر سیٹوں میں کمی نہ کی جاتی تو کیا آپ لوگ مردم شماری کے خلاف اسطرح اکھٹے احتجاج پراترآتے؟؟ وہ بھی تمام اختلافات بُھولا کر
ساحل صاحب .. مولوی سے کچھ پوچھنا ہی سب سے بری غلطی ہے .. آج کل اسلام ٣٦٠ کے نام سے ایک ایپ تیار کی گئی ہے … جس نے کی مولویوں کی دکانداری بند کرکے رکھ دی ہی ،، اپ بھی آزما لیجئے گا .. باقی رہی بات مردم شماری پہلے اور احتجاج بعد میں والی بات ، اگر پاکستان کے سیاست دان اتنے دور اندیش ہوتے تو آج ہم جس جگہہ کھڑے ہیں یہاں نہ ہوتے ، ان کو کیا معلوم تھا کہ مردم شماری کا نتیجہ یہ نکلے گا .. باقی اس سوال کا جواب سلطان وزیر صاحب کے پاس ہے .. مجھے ان کے بات کی پوری سمجھ نہیں لگی اپ بھی ان کا کمینٹ اسی بینر کے نیچے فیس بک پر دیکھ سکتے ہیں .. یہ براہ راست ان سے پتہ کرلیں .. باقی آپکی سوچ بہت اچی ہے ..
Absolutely right