جنگلی حیات کا تحفظ
جنگلی حیات یعنی چکور، تیتر، چیتا، مارخور، اور مسمی پرندے فاختہ اور بطخ چترال کی خوبصورتی میں اظافہ کرتے ہیں۔ چترال میں جنگلی حیات کے تحفظ کا ادارہ موجود ہونے کے باوجود یہ جنگلی حیات ناپید ہوتے نظر آتے ہیں ۔ کیونکہ ان کا شکار نہیں بلکہ نسل کشی کی جاتی ہے۔ جو لوگ ان کی حفاظت پر مامور ہیں۔ وہی لوگ ان کا شکار کرتے ہیں۔ نہ صرف وہ ان کا شکار کرتے ہیں بلکہ دوسرے عام لوگوں کو بھی شکار کرنے سے روکنے میں بری طرح سے ناکام ہیں۔ جب مسمی پرندے فاختہ اور بطح چترال میں داخل ہوتے ہیں تو یہ شکاری بندوقیں لیکر ایسا ان کے پھیچے پڑتے ہیں جیسا کہ ان کا دشمن ان کے علاقے میں داخل ہوا ہو۔ بطح کا ایک جھونڈ جب چترال کے ایک علاقے میں داخل ہوتا ہے تو وہ دوسرے علاقے پھونچنے سے پہلے ختم ہو جاتے ہیں۔ یہی سلوک فاختہ اور پاکستان کا قومی پرندہ چکور کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ شکار کرنا ایک شوق ضرور ہے۔ لیکن اس شوق کو لیکر ان خوبصورت جانوروں اور پرندوں کی نسل کشی اخلاقا” بہی جرم ہے اور قانونا” بھی جرم ہے۔ لہذا جنگلی حیات کے تحفظ کے ادارے کو زیادہ فعال ہونا چاھئے۔ خاص کرکے اس ادارے کو ان افراد پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے جو ان کی حفاظت پر مامور ہیں۔ اور شکار کے قانون پر سختی سے عمل پیرا ہو کر ان حوبصورت جانوروں اور پرندوں کی نسل کشی کو روکا جا سکتا ہے۔
Muhammad Khan.