اور دل خوش ہوا

جب بھی بانگ سےبونی یا چترال کاسفر پیش اتا ہے تو مستوج _بونی سڑک کا سوچ کر ہم جیسے کمر خمیدہ لوگوں کی کمرمیں پیشگی ٹھیسیں اٹھنے لگتی ہیں- کوئی پانج چھہ سال پہلے اس کچی سڑک کی مرمت کی گئ تھی- مٹی ڈالکر رولر سے اچھی خاصی ہموار کی گئی تھی- اس کے بعد مرمت نہ ہونے کی وجہ سے یہ سڑک پھر تباہ و برباد ہوگئی اور مسافروں کے لیے عذاب جان بن گئی- مستوج سے آگے ہچھلے سال برائے نام مرمت یعنی ہولڈوز سے سیلابی ملبے ہٹائے گئے تھے بلکہ اس 24فٹ چوڑی سڑک کے دونوں اطراف جمع کئے گئےتھے- بمشکل 12 فٹ سڑک برائے نام ہموار ہو گئی تھی- گاؤنوں کے اندر لاتعداد ذیلی نہروں پر کلوٹ نام کی کوئی چیز بنی ہی نہیں تھی- اس خستہ حال سڑک پر سفر بانگ سے بونی جو کم و بیش 80 کلومیٹر ہے ،پانج گنٹھے صرف کرتا تھا اور مسافر کا انجر پنجر ڈھیلا کرکے چھوڑ دیتا تھا اور شکل؟ مت پوچھئیے تو بہتر
اب قاری یہ اندازہ لگانے میں کوئی غلطی نہیں کرے گا کہ بانگ سے اوپر بالائی یارخون اور بروغل ٹریک کی کیا حالت ہوگی اور وہاں کے مسافروں کو کس اذیت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہوگا-قاری کہیں یہ نہ سمجھے کی لکھاری کی دماغی حالت میں گڑ بڑ تو نہیں؟موضوع”دل خوش”ہونے کا ہے اور گفتگو ساری نا خوشی کی!
جب پرسوں یعنی 16 نومبر کو سوئے بونی سفر ہوا تو گاؤں مہرتنگ میں داخل یوتے ہی دل خوش ہوا کیونکہ اسمعیلی ولنٹئیرز نے اپنے گاؤں کے اندر اور اس سے نیچے مہرتنگ
گول کی سیلاب زدہ سڑک کی مرمت اور صفائی کرکے اپنے مذہبی رضاکارانہ خدمت کے جذبے کا بھرپور مظاہرہ کیا تھا کیونکہ ان کے امام وقت کی تشریف آوری کی امید ہوچلی ہےتاکہ دیدار کے کے لیے جانے والوں کو تککیف کا سامنا نہ ہو-میں خودکلامی میں مہرتنگ کی عوام اور رضاکاروں کےلیے زندہ باد کا نعرہ لگایا اور آگے بڑھا تو خروزگ کے درمیان سڑک کو بھی صاف ستھرا اور مسطح پایا-اس سے آگے دیزگول کے تباہ حال ٹریک کو بحال پایا اور دیزگ کے درمیان سڑک کو مڈل سکول کے قریب تک دوبارہ زندہ حالت میں دیکھا اور خروزگک اور دیزگ والوں کو سلام پیش کرتے ہوے اپنا سفر بہتر حالت میں جاری رکھا- کھوتانلشٹ سے نیچے ابھی کام شروع نہیں ہواتھا تاہم ایسی والنٹئیر خدمات کے حوالے سے بریپ،کارگین،کھوژ، چپاڑی، ہوندور،چونج چنار، پرکوسپ اور مستوج کے لوگوں کی ایک تابناک تاریخ ہے- جس زمانے میں پرواک مستوج سڑک کی تعمیر نامکمل پڑی تھی تو مستوج کے مرحوم شہزادہ خوشوخت الملک کی سربراہی میں ان گاؤنوں کی عوام نے دسمبر جنوری کے مہینوں میں یہ سڑک ٹریفک کے لیے کھولدیا تھا-مستوج سے ژوپو کی جیب ایبل روڈ عوام ہی نے اپنی مدد آپ کے تحت تعمیر کی تھی-
میں سوچ میں تھا کہ مستوج بونی روڈ کا بیشتر حصہ آبادی سے ہٹ کر ہے -اس کی مرمت کا کیا ہوگا؟
بونی سے واپسی پر گاؤں اوی کے سامنے ڈوزر کو کھڑا دیکھا اور اس کے قریب ہی پانج چھ جوانوں کو گول دائرے میں بیٹھے کھانا کھاتے دیکھا تو ان کوسلوٹ پیش کیا اور آگے بڑھاتو ڈوزر کا کام بھی نظر آیا-میں نے ایکس ای این
سی اینڈ ڈبلیو کو غائبانہ شاباشی دی اور تشکر بولا- یہاں پر ایکس ای این صاحب کی توجہ چمرکھان گول کے اوپر پل اور ژوپو پل کی خطرناک حالت طرف مبذول کرانا بہت ضروری سمجھتا ہوں جن کے تختے اور شہتیر ٹوٹ کر انہیں نا قابل استعمال بنا دیےہیںاور جیاں کسی وقت بھی حادثہ ہوسکتا ہے (اللہ نہ کرے) جن کی تصویریں یہاں نہیں لگائیںتاکہ خوشگوار موڈ خراب نہ ہوجائے- میرا دل اس بات پر بہت خوش ہوا کہ سرکاری محکمے اور افسران بھی عوام کی خوشی میں شریک ہو گئے ہیں- میں نے امام وقت پرنس کریم کو بھی دل کی گہرایوں سے سلام پیش کیا کہ “اے کہ آمدنت باعث آبادی ما ست” سرکاری ڈوزر نے سڑک سے پتھر اور مٹی کسی حد تک ہٹا چکا ہے -اب آوی کے والنٹئیر تھوڑا بیلچوں سے اس پر کام کریں گے تو ہم مستوج سے ایک یا سوا ایک گنٹھے میں بونی پہنچ سکتے ہیں- اسی طرح بانگ سے بونی 5گنٹھے کی پر مشقت سفر ہم صرف 3 گنٹھے میں طے کرسکتے ہیں-
جوں جوں میری گاڑی آگے بڑھتے گئی تو ہوندور (شانو ہون)چپاری،کارگین ، بریپ ،بیرزوز اور بانگ میںپانج سال کے بچے اور بچی سے لے کر 80سال کے بزرگ تک کو سڑک کی مرمت و صفائی میں منہمک پایا- اس کو کہتے ہیں زندہ قوم!! یہاں پر اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ ہزہائنس پرنس کریم آغاخان کی متوقع آمد کی استقبالی تیاری میں ہمارے اہل سنت والجماعت بھائی بھی پیش پیش ہیں-ہم ان کے بے حد شکر گزار ہیں-اللہ پاک بھائی چارے کے اس عظیم جذبے کو تا ابد زندہ رکھے،آمین یا رب العالمین!